قرآن مجید تھامنے پر تنقید کا نشانہ بننے والی اداکارہ
2015 میں ہولی وڈ اسٹار لنزے لوہان کو نیویارک کی گلیوں میں قرآن مجید کو اٹھا کر گھومنے پر امریکا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس سال ترکی میں شامی پناہ گزینوں کے لیے کام کرتے ہوئے حجاب پہننے پر وہ تنازع کی زد میں آگئی ہیں۔
ٹرکی کے ٹی وی چینیل ہیبر ترک کو انٹرویو دیتے ہوئے لنزے لوہان نے اپنی زندگی کے ان حالیہ واقعات کا ذکر کیا گیا جو غلط فہمی کی بناءپر شہ سرخیوں میں آگئے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اپنے ملک سے باہر انہیں اس وقت کیسا محسوس ہوا جب قرآن مجید تھامنے پر امریکا میں انہیں 'سولی' پر چڑھا دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا ' وہ تو میں بس پکڑ کر چل رہی تھی، ایک پاپ رازی (فوٹوگرافر) پوری گلی میں موجود تھے اور انہوں نے مجھے اس پر امریکا میں سولی پر چڑھا دیا، انہیں مجھے کچھ ایسا بنا دیا جیسے میں شیطان ہوں یا قرآن پکڑنے پر میں بری عورت بن گئی ہوں، میں اس بات پر خوش ہوں کہ اس واقعے کے بعد میں لندن چلی گئی کیونکہ میں خود کو اپنے ملک میں غیرمحفوظ محسوس کرنے لگی تھی، میرا ماننا ہے کہ اگر میں کچھ جاننا چاہتی ہوں تو وہ میری اپنی مرضی ہے، وہ کسی اور کے سامنے اظہار کے لیے نہیں'۔
لوہان کی ہنگامہ خیز برسوں سے عوام کی نظر میں ہے، وہ بتاتی ہیں کہ لندن اور سعودی عرب میں ان کے قریبی دوستوں نے انہیں قرآن مجید دیا تھا کہ امریکا میں جس مشکل وقت کا وہ سامنا کررہی ہیں، اس کے لیے مدد مل سکے ' انہوں نے مجھے قرآن دیا اور میں اسے نیویارک لے آئی کیونکہ میں اس سے سیکھ رہی تھیں اور میرے لیے تجربے اور روحانیت کے دروازے کھل رہے تھے جس سے میں نے دیگر حقیقی معنی جانیں'۔
مگر ذہنی اذیت کا سامنا کرنے پر انہیں سمجھ میں آیا ' جو خواتین حجاب پہنتی ہیں وہ مختلف کیوں نظر آتی ہیں، کیونکہ وہ خود کو اجنبی محسوس کررہی ہوتی ہیں'۔
رواں ماہ کے شروع میں لوہان نے ترکی میں شامی پناہ گزینوں کے کیمپ کا دورہ کیا جہاں انہیں ایک پناہ گزین کی جانب سے حجاب تحفے میں دیا گیا، جس کو پہننے پر یہ ہولی وڈ اسٹار ایک بار پھر مغرب میں ہیڈلائنز کی زینت بن گئی۔
اداکارہ وضاحت کرتی ہیں ' جب اس خاتون نے مجھے حجاب پہنایا تو مجھے اعزاز کا احساس ہوا کیونکہ اس خاتون نے مجھے اپنے انداز سے اپنی ثقافت کا حصہ بننے کا موقع دیا، حالانکہ میں اس کے لیے اجنبی تھی'۔
وہ تسلیم کرتی ہیں کہ حجاب پہننے سے پہلے انہوں نے کئی بار سوچا کہ میڈیا اس کی عکاسی کیسے کرے گا اور انہیں ڈر تھا کہ اس غلط انداز سے پیش کیا جائے گا اور حقیقت چھپ جائے گی ' اسے شہ سرخیوں میں آنا ہی تھا کیونکہ ترکی میں یہ کسی خاتون کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ حجاب پہنے یا نہ پہنے، یہاں یہ حیرت انگیز امر ہے کہ آپ کو اپنی پسند کے انتخاب کا موقع ملتا ہے اور اسے قبول بھی کیا جاتا ہے، جبکہ امریکا میں، جب میں نے قرآن مجید کو ہاتھ میں لیا تو شیطان بن گئی'۔
اگرچہ لوہان کا ترکی کا دورہ کام کی مقصد سے تھا مگر انہوں نے وہاں قیام کا فیصلہ کیا، جس کے بعد وہ شامی پناہ گزینوں کی مدد کرنے لگیں' یہ وہ وقت ہے جب ہمیں سچ کا اعتراف کرکے بہتری لانے کے لیے کچھ کرنا چاہئے'۔