پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور ریلوے کا خسارہ 705 ارب روپے
اسلام آباد: پاکستان کے تین بڑے سرکاری اداروں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن(پی آئی اے)، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کا گزشتہ تین برسوں کے دوران خسارہ 705 ارب روپے تک جا پہنچا۔
اس کے علاوہ پاور سیکٹر کی کئی کمپنیوں کے اکاؤنٹس بھی 660 ارب روپے کے قرضوں سے بھرے ہوئے ہیں جن میں سے 348 ارب روپے کے قرض گزشتہ تین برسوں میں لیے گئے حالانکہ اس دوران کنزیومر ٹیرف میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی بحالی تین سالہ معاشی اصلاحات پروگرام کا مرکزی خیال رہا ہے۔
اگر مذکورہ سرکاری اداروں اور پاور کمپنیوں کے خساروں کا یکجا کیا جائے تو اس کا حجم 1.365 کھرب روپے بنتے ہیں جو کہ ملک کے موجودہ سالانہ ترقیاتی پروگرام 1.25 کھرب روپے سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض کی آخری قسط جاری‘
یہ اعداد و شمار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے ساختیاتی اصلاحات پروگرام کے اسکور کارڈ میں جاری کیے گئے جس کا آغاز آئی ایم ایف کے تین سالہ توسیعی سہولت فنڈ کے تحت کیا گیا تھا جو 30 ستمبر کو ختم ہوگیا۔
آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران گیس کے شعبے میں بھی خسارے کے حجم میں 11.5 فیصد اضافہ ہوا۔
قدرتی گیس سسٹم کو ہونے والے سالانہ نقصان کا تخمینہ 6 ارب روپے لگایا گیا تاہم اس عرصے کے دوران گیس کی قیمتوں میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ رواں ماہ نرخوں میں مزید اضافہ کرے گی۔
آئی ایم ایف کے مطابق صارفین تک پہنچائی جانے والی بجلی 35 فیصد مہنگی ہونے کے بعد 11.9 روپے فی یونٹ ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق 13-2012 میں مذکورہ تینوں سرکاری اداروں کے مجموعی خسارے کا حجم مجموعی قومی پیداوار کا 1.7 فیصد تھا جو 16-2015 میں بڑھ کر جی ڈی پی کا 2.3 فیصد ہوگیا جبکہ جی ڈی پی کا حجم بھی اب کافی بڑھ چکا ہے۔
مزید پڑھیں: 'اب ہمیں آئی ایم ایف کی امداد کی ضرورت نہیں'
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلوے کے سالانہ خسارے میں اضافے کی رفتار گزشتہ تین برسوں میں کم ہوئی ہے اور اس میں سالانہ 95 ارب روپے کے بجائے 61 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچارج لگاکر کنزیومر گیس ٹیرف 540 روپے فی یونٹ سے بڑھا کر 647 روپے کردیا گیا جبکہ پاور سیکٹر کے واجب الادا رقم کا حجم بھی جی ڈی پی کے 2.2 سے 2.3 فیصد تک ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاور سیکٹر کے بقایا جات کا بڑا حصہ جون اور اگست 2013 میں ادا کردیا گیا تھا لیکن واجب الادا رقم کا حجم دوبارہ بڑھ گیا تاہم اس کی رفتار کم ہوگئی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کا ترسیلی خسارہ کم ہوکر 17.9 فیصد رہ گیا جبکہ وصولیاں بھی 5 فیصد اضافے کے بعد 92.6 فیصد ہوگئی ہیں۔
اس کے علاوہ پاور سیکٹر کو دی جانے والی سبسڈیز بھی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے کم ہوکر 0.6 فیصد ہوگئیں جبکہ صنعتی علاقوں میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ بھی 9 گھنٹوں سے کم ہوکر یومیہ ایک گھنٹہ رہ گئی۔
شہری علاقوں میں بھی بجلی کی یومیہ بندش کا دورانیہ کم ہوکر 5 گھنٹے رہ گیا جو 2013 میں 8 گھنٹے تھا۔
آئی ایم ایف نے زور دیا کہ سرکاری اداروں کی بحالی کے لیے ان کی تعمیر نو اور پرائیوٹ سیکٹر کی شراکت داری ضروری ہے تاکہ ان مالی ذمہ داریاں پوری ہوسکیں اور مالیاتی اخراجات کم ہوسکیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون سازی کے ذریعے پی آئی اے کے زیادہ تر شیئرز اور انتظامی کنٹرول حکومت کے پاس رکھا گیا لیکن حکومت پی آئی اے میں نجی شعبے کی شراکت داری کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔
آئی ایم ایف نے زور دیا کہ پی آئی اے کے مالیاتی اور آپریٹنگ خسارے کو کم کرنے کے لیے اسی طرح کے مزید اقدامات جاری رہنے چاہئیں۔
اس کے علاوہ پاکستان اسٹیل ملز کا کنٹرول صوبائی حکومت کو منتقل کرنے کے حوالے سے مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہونے کے بعد حکومت نے نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کردیا ہے اور جون 2017 تک پیشکشیں جمع کرانے کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان ریلویز کی آمدنی میں بہتری کو سراہا اور ریلویز کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومتی عزم کی تعریف کی۔
یہ خبر 17 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی