ادب کا نوبیل انعام باب ڈلن کے لیے ہی کیوں؟
الفریڈ نوبیل کا نام دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ایک بہترین سائنسدان اور انسانی اقدار کے نام لیوا تھے۔ وہ ڈائنامائٹ کے دریافت کنندہ تھے۔ الفریڈ کا خیال تھا کہ ان کی یہ دریافت انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام آئے گی لیکن اس کو منفی پہلو سے مقبولیت حاصل ہوئی۔
ان کی اس دریافت سے آتشیں اسلحے کو فروغ ملا جس سے انسانی جانوں کا زیاں ہوا۔ یہی وہ خدشات تھے، جن کی بنیاد پر الفریڈ نوبیل نے یہ ارادہ کیا کہ وہ دنیا میں امن اور خوشحالی کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل صرف کر دیں گے۔ انہوں نے اپنی ایجاد کے منفی تاثر اور استعمال کی روک تھام کے لیے اعزازات دیے جانے کے آئیڈیے پر توجہ مرکوز کی۔
چنانچہ انہوں نے اپنی موت سے چند برس پہلے انعامات کی شکل میں ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا طریقہء کار وضع کیا، جو دنیا میں امن اور بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی کوششوں کا نہ صرف زبانی اعتراف کیا جائے، بلکہ معاشی معاونت بھی کی جائے۔
اس طرح الفریڈ نوبیل کی رحلت کے پانچ برس بعد 1901 میں نوبیل انعام کا اجراء ہوا۔ امن، حیاتیات، کیمیا، معاشیات، طبیعیات، طب اور ادبیات کے شعبے منتخب کیے گئے، جن میں یہ ایوارڈز دیے جاتے ہیں۔ یہ اعزازات دنیا بھر کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔
نوبیل انعام کی مقبولیت کے باوجود ان پر اعتراض ہے کہ دنیا کے سیاسی حالات بھی ان انعامات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس کے معروف فلسفی اور ادیب جان پال سارتر کو 1964 میں ادب کا نوبیل پرائز دیا گیا جو انہوں نے وصول کرنے سے انکار کردیا۔ سارتر نے اس کے لیے کئی وجوہات پیش کیں، اس میں سے ایک ان کے نزدیک یہ بھی تھی کہ مشرق سے تعلق رکھنے والے صرف ان ادیبوں کو یہ انعام دیا جاتا ہے، جو باغی تصور کیے جاتے ہیں جبکہ مغرب سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں.
2009 میں امریکی صدر بارک اوباما کو امن کا نوبیل پرائز دینے پر سوئیڈش اکیڈمی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایوارڈ بھی دنیا بھر میں متنازع رہا۔ اسی طرح اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف کر دینے والی معروف سماجی شخصیت عبدالستارایدھی کو نظر انداز کرنا بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، کیوں کہ انسانیت کی خدمت کرنے پر مدر ٹریسا کو بھی تو نوبیل پرائز سے نوازا جا چکا ہے۔
رواں برس میں ادب کا نوبیل انعام گلوکار اور موسیقار باب ڈلن کو دیا گیا، جس کے بعد اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں ردعمل آ رہا ہے۔ اس فیصلے کو سمجھنے کے لیے کچھ پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔
ایسا کیوں ہوا کہ ایک گلوکار اور موسیقار، جو گیت نگار بھی ہے، اس کو ادب کا نوبیل انعام دے دیا گیا۔ کیا سوئیڈش اکیڈمی تاحال الفریڈ نوبیل کے طے کیے گئے لائحہ عمل، مقصدیت اور پیمانے پر قائم ہے یا نہیں، یہ سوالات ہمیں بہت کچھ بتاتے ہیں۔
ادب کے نوبیل پرائز کے تناظر میں کچھ سوالات
نوبیل پرائز کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا مختلف اور متنازع فیصلہ ہے، جس پر مستقبل میں بھی بحث جاری رہے گی۔ وہ سوالات یہاں درج ذیل ہیں، جن کے متن میں بہت حد تک ان کے جوابات بھی موجود ہیں اگر باریک بینی سے ان سوالوں کا جائزہ لیا جائے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ان سوالوں کا رخ سوئیڈش اکیڈمی کی جانب ہے، نہ کہ باب ڈلن کی طرف، کہ ان کی موسیقی کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش اور قابلِ قدر ہیں۔
باب ڈلن کی شہرت کا حوالہ گلوکاری ہے یا ادب؟
باب ڈلن کے لکھے ہوئے گیتوں میں تخلیق کے جو اثرات موجود ہیں، کیا صرف اثرات کی بنیاد پر ان کو ادب قرار دے دیا جائے؟
باب ڈلن اگر اتنا اہم گیت نگار تھا، تو گزشتہ پچاس سالوں سے بھی زیادہ عرصے میں اس پر توجہ نہیں کی گئی، اب اچانک اس کا خیال کیوں آیا؟
کیا باب ڈلن کی تجرباتی گیت نگاری کو اہم سمجھ کر یہ ایوارڈ دیا گیا، اگر ایسا ہے تو کیا موسیقی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے دیگر ایسے گیت نگاروں کو بھی مستقبل میں ایوارڈ دیے جائیں گے، یعنی ادب کے ایوارڈز؟
باب ڈلن مصور بھی ہیں، ان کی ڈرائنگ اور پینٹنگز کی اب تک چھے کتابیں فروخت ہو چکی ہیں، تو کیا مصوری کے شعبے میں بھی ان کو کوئی ادارہ ایوارڈ دے گا؟
سوئیڈش اکیڈمی کی نظر میں ادب کی تعریف کیا ہے؟ سوئیڈش اکیڈمی نے ادب کے شعبے میں کیا حدود قائم کر رکھی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا سوئیڈش اکیڈمی کسی شعبے کی تعریف وضع کر سکتی ہے؟
اگر کسی بھی شعبے میں تخلیقی تاثر رکھنے والا کوئی تخلیق کار موجود ہے، جس کے کریڈٹ پر کسی اور شعبے کا کام ہو، مگر اس کی لکھت میں صرف تخلیقیت کو محسوس کرنے پر ادبی ایوارڈ دے دینا چاہیے؟
فرض کریں کہ اگر اس فیصلے کو پاکستان میں نافذ العمل کیا جائے، تو معروف شاعر جون ایلیا کی تازہ ترین کتاب راموز میں السٹریشن بہت اچھی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں مصوری کے تناظر میں وسیع کینوس موجود تھے۔ تو کیا اس بات پر انہیں ”تمغہءِ حسنِ کارکردگی برائے مصوری“ دے دیا جائے؟
عالمی ادبی منظر نامے پر عصری ادیبوں میں الین گنزبرگ، فلپ روتھ، ڈون ڈیلیلو، جیک کریوک اور ہروکی موراکامی کے ناولوں اور دیگر ناول نگار مسلسل دورِ حاضر کے ادب میں بہترین اضافے کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی مقبولیت اس بات کی گواہی بھی ہے۔ ایسا کیا ہے جو ادب کا نوبیل انعام کچھ عرصے سے صحافیوں، گیت نگاروں اور دیگر شعبوں کے لکھنے والوں کو دیا جانے لگا ہے؟
سوئیڈش اکیڈمی سائنس کے شعبے میں کسی غیر سائنسی شخصیت کو ایوارڈز کیوں نہیں دیتی، بہت سارے فلم ساز اور لکھاری سائنسی ادب اور سائنس فکشن فلمیں تخلیق کر رہے ہیں، کیا انہیں سائنس کا نوبیل پرائز نہیں ملنا چاہیے؟
کیا سوئیڈش اکیڈمی خود کو دورِ حاضر سے جوڑے رکھنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ ایوارڈ صرف بوڑھے لوگوں کا نہیں، بلکہ نئی نسل کی دلچسپی کے لیے بھی اس میں بہت کچھ ہے، اس لیے مصلحت کے تحت باب ڈلن کو دے دیا گیا، جس کی نوجوان نسل میں مقبولیت ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو پوری کتاب پڑھنے کے بجائے چھے منٹ کا گانا سن کر اپنے 'ادبی' ذوق کی تسکین کرلیتے ہیں۔ یہ ایوارڈ ان لوگوں کی خاطر دیا گیا؟
موسیقی کے تقریباً تمام بڑے ایوارڈ حاصل کرنے والے باب ڈلن کو موسیقی کی دنیا میں تو کبھی ادب کا قلم کار نہیں سمجھا گیا جہاں وہ کئی دہائیوں سے کام کر رہے ہیں، نہ ہی ادب کی دنیا میں، لیکن پھر ادب کے انعام کے لیے وہ کیوں؟
سوئیڈش اکیڈمی کی نظر میں ”خالص ادب“ اہم ہے یا ”ادبی تجربات“ جن کا پتہ بھی نہیں کہ وہ ادب ہے بھی یا نہیں؟
اگر باب ڈلن کے تناظر میں نوبیل ادبی انعام کو دیکھاجائے تو 116 برسوں میں سوئیڈش اکیڈمی غلطی پر تھی، جس کا ادراک اسے اب ہوا۔
اس ساری بحث سے باب ڈلن کا کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہی ان کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ وہ اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا میں دکھی لوگوں کے دلوں کی آواز بننے کی کامیاب کوشش کی۔ گیت نگاری بھی اس کا ایک پہلو ہے، مگر اصل خدمت موسیقی اور گلوکاری سے کی۔
اگر وہ آج اتنے بڑے گلوکار اور موسیقار نہ ہوتے، تو سوئیڈش اکیڈمی کو یاد بھی نہ آتے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ موسیقی کے شعبے میں ایک کامیاب فنکار ہیں جن کے اثرات دیگر شعبوں پر بھی پڑے ہیں۔
سوئیڈش اکیڈمی کاموقف
باب ڈلن کو ادب کا نوبیل انعام دیے جانے کے حوالے سے سوئیڈش اکیڈمی اپنا مؤقف بیان کرچکی ہے۔ سوئیڈش اکیڈمی کی طرف سے اس کا عذر یہ تراشا گیا کہ انہیں یہ ایوارڈ اس لیے عطا کیا گیا، کیوں کہ ”انہوں نے امریکی گیت نگاری کی شاندار روایت کے ذریعے سے، شاعرانہ تاثرات کا ایک منفرد راستہ تخلیق کیا۔“ اس وجہ سے وہ اس برس نوبیل ادبی انعام کے حقدار ٹھہرائے گئے۔
ایک عام قاری اور غیر جانبدار تخلیق کار کی نظر میں 2016 کا نوبیل ادبی پرائز ادب تخلیق کرنے والوں کے ساتھ شدید ناانصافی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس فیصلے پر تنقید کے قوی امکانات ہیں۔
دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی ادبی دنیا
باب ڈلن کو ایوارڈ ملنے کے بعد ادبی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جن کی نظر میں یہ درست فیصلہ ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے خیال میں ادب کو ادب ہی رہنے دیا جائے، تجربہ گاہ نہ بنایا جائے۔ جس طرح دیگر شعبوں میں انہی شعبوں سے جڑے ماہرین کو ایوارڈز دیے جاتے ہیں، ادب کے شعبے میں بھی ان حدود و قیود کا خیال رکھا جائے اور ان پر سختی سے پابندی کی جائے۔
مغرب میں باب ڈلن کو ادب کا نوبیل انعام ملنے کے فوراً بعد جو ردعمل آیا،اس میں سرفہرست امریکا کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز اور برطانیہ کے مقبول روزنامے دی گارجین کی رپورٹیں شامل ہیں، جن میں مختلف شعبہ جات، بالخصوص ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں ”سوئیڈش اکیڈمی“ کے اس حیران کن فیصلے پر روشنی بھی ڈالی ہے، جس کے مطابق ”سوئیڈش اکیڈمی نے اپنی روایات کے برعکس ایک غیر متوقع فیصلہ کیا، جس کے بعد باب ڈلن کا شمار ایسی نامور ہستیوں کے ساتھ ہونے لگا ہے، جنہیں دنیا ٹی ایس ایلیٹ، گیبرئیل گارشیا مارکیز، سیموئل بیکٹ اور ٹومی مورسن کے نام سے جانتی ہے۔“ سلمان رشدی سمیت کئی ایک ادیبوں نے اس فیصلے کو سراہا بھی ہے۔ درج ذیل لنک کے ذریعے اس تفصیلی رپورٹ کو پڑھا جاسکتا ہے۔
معروف برطانوی اخبار دی گارجین نے باب ڈلن کے اس غیر متوقع انتخاب پر ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ ادبی شخصیات سے رائے لی، تو مختلف جوابات پڑھنے کو ملے۔ کہیں ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اس فیصلے کی تعریف کی، تو کہیں اس پر تنقید کی گئی اور اسے حدود سے تجاوز کرنا قرار دیا گیا۔ بشمول اس بات کے کہ ”یہ فیصلہ سب کے لیے خوشگوار نہیں ہے۔“ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادبی منظرنامے پر عالمی برادری کیا سوچ رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس پر مزید کس رخ پر گفتگو کی جائے گی۔
اردو زبان اور نوبیل ادبیات
نوبیل انعامات حاصل کرنے والوں کے خطبات کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کے حوالے سے باقر نقوی ایک اہم نام ہیں جنہوں نے باقاعدہ سوئیڈش اکیڈمی کی تحریری اجازت سے ادبیات، امن اور حیاتیات کے شعبوں سے 300 شخصیات کے تعارف اور ان کے خطبات کا اردو زبان میں ترجمہ کیا، جبکہ کئی نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والے ناول نگاروں کے ناول بھی اردو زبان کے قالب میں ڈھالے۔
باقر نقوی کے خیال میں "گزشتہ کچھ برسوں سے سوئیڈش اکیڈمی غیر متوقع فیصلے کرنے لگی ہے، جس طرح ابھی 2016 کا ادبی ایوارڈ یا 2009 میں امریکی صدر بارک اوباما کو دیا جانے والا نوبیل امن انعام۔" وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ "سوئیڈش اکیڈمی اچانک کسی شخص کے بارے میں انعام دینے کا فیصلہ نہیں کرتی، بلکہ وہ کئی برسوں تک اس شخص کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہیں، جس کو انہوں نے اعزاز دینا ہوتا ہے۔ اس سارے عمل سے متعلقہ شخصیت اور عوام بے خبر ہوتے ہیں۔ نہایت غیر جانبداری سے فیصلہ کیا جاتا ہے، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ سوئیڈش اکیڈمی کی ترجیحات تبدیل ہونے لگی ہیں۔"
انور مقصود سے ایک مکالمہ
مشہور ڈرامہ نگار انور مقصود سے ایک نشست کے دوران میری گفتگو رہی۔ انور مقصود نے اپنے کریئر میں لاتعداد ڈرامے تحریر کیے ہیں، مگر ادبی حلقوں کی جانب سے انہیں 'ادیب' پھر بھی نہیں مانا جاتا۔ جب میں نے ان سے اس بات کی وجہ پوچھی، تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیب کہلانے کے لیے آپ کا کام کتابی شکل میں شائع ہونا ضروری ہے، جبکہ وہ اب بھی اس منزل پر نہیں پہنچے۔
بقول انور مقصود صاحب کے، یہ اصول صرف پاکستانی ادبی حلقوں کا بنایا ہوا نہیں، بلکہ عالمی طور پر تسلیم شدہ ہے، اور اسی لیے وہ اب تک ادیب کا لقب حاصل نہیں کر سکے ہیں۔
اگر ہم اسی کلیے کی بناء پر باب ڈلن کی گیت نگاری کو دیکھیں، تو ہاں ضرور ان کی گیت نگاری آفاقی اہمیت کی حامل ہے، لیکن کیا وہ ابھی کتابی صورت میں موجود ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔
نوبیل پرائز ایک اہم ترین اعزاز ہے۔ دنیا بھرمیں اس کو قدر اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سوئیڈش اکیڈمی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے کسی فیصلے سے ادیبوں اور قارئین کی حق تلفی نہ ہو، ورنہ یہ اعزازات اپنی مقبولیت کھونے لگیں گے۔
انعامات کا فیصلہ اگر تخلیق کے بجائے تجربات کی بناء پر کیا گیا، تو یہ اعزاز عطا کرنا نہیں بلکہ بندر بانٹ کہلائے گا، اور یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک چل نہیں پائے گا، کیوں کہ آخری فیصلہ تخلیقات پر ہوتا ہے، جس کے سب سے بڑے منصف وقت اور قارئین ہوتے ہیں۔ انعامات کسی کو وقتی طور پر تو فائدہ پہنچا سکتے ہیں، مگر ادب کی تاریخ میں وہی ادیب زندہ رہے گا جس کے پلے اصل ادب ہوگا، باقی سب زیاں ہے۔