'نجی اسکولز فیس میں سالانہ 5 فیصد سے زائد اضافہ نہیں کرسکتے'
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے نجی اسکولوں کی جانب سے فیس میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے محکمہ تعلیم کو حکم دیا کہ وہ فیس میں اضافے کے طے شدہ قانون کو سختی سے نافذ کریں اور ساتھ ہی نجی اسکولوں کے اکاؤنٹس کی آڈٹ شدہ سہ ماہی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔
سندھ ہائی کورٹ نے فیس میں اضافے کے خلاف والدین کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن کو بھی منظور کرلیا۔
پرائیوٹ اسکولز نے عدالت میں اس قانون کو چیلنج کیا تھا جس کے مطابق اسکولز تعلیمی سال کے دوران فیس میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ ہائیکورٹ نے اسکولوں کو فیسوں میں اضافے سے روک دیا
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران 5 فیصد سالانہ سے زیادہ فیس بڑھانے والے اسکولوں کی دوبارہ رجسٹریشن ہوجانے تک مزید کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔
بینچ نے والدین، جنریشنز اسکول پرائیوٹ لمیٹڈ اور دیگر نجی اسکولوں کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواستوں پر 16 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔
بینچ نے صوبائی محکمہ تعلیم کو ہدایت دی کہ وہ 2002 کے قوانین کے ذیلی قانون 7 ایم (3) کے نفاذ کو یقینی بنائے جو نجی اسکولوں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ تعلیمی سال کے دوران فیس میں پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ نہ کریں جبکہ فیس اسٹرکچر میں تبدیلی سے قبل حکومت سے منظوری لیں۔
نجی اسکولوں کی جانب سے بیان کی جانب والی فیس بڑھانے کی وجوہات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے بینچ نے ریمارکس دیے کہ اسکولوں کی جانب سے ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ اسکول بچوں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کے مطابق ہی فیس وصول کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کمرشل تعلیم اور بے بس ریاست
اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ 'اسکولز دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا کاروبار مارکیٹ کے اس کھلے اصول کے مطابق ہے کہ جتنے پیسے آپ دیں گے ویسی ہی چیز آُپ کو ملے گی'۔
عدالت نے کہا کہ ایک مقدس پیشے کے حوالے سے اس طرح کی باتیں کرنا شرم ناک ہے۔
ججز نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے نجی اسکولوں کو قانون کے دائرے میں لانے میں ناکامی کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ فریقین میں اختلافات بڑھتے جارہے ہیں۔
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں کے ذریعے عوام کو تعلیم سے بہرہ مند کرنے میں ریاست کی ناکامی کا فائدہ انفرادی شخصیات اٹھاتی ہیں اور جس کا نتیجہ پرائیوٹ اسکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ نجی اسکولز فیس میں اضافے کے طے شدہ مکینزم پر عمل نہیں کررہے اور نہ ہی محکمہ تعلیم کی جانب سے اس پر عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
پرائیوٹ اسکولز کے وکیل نے اس موقع پر موقف اختیار کیا کہ اسکول چلانے پر آنے والے اخراجات، ماہر اساتذہ کی تقرری، یوٹیلٹی بلز میں مسلسل اضافے اور ٹیکسز کی وجہ سے اسکول فیس بڑھانے پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو بچوں کی سلامتی کے لیے موثر سیکیورٹی انتظامات پر بھی آنے والے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری اسکولوں کے بغیر تعلیم کیسے 'عام' ہوگی؟
وکیل نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے مفت ضروری تعلیم کے قانون کے تحت نجی اسکولوں میں بچوں کے داخلے سے ان پر مالی بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔
وکیل نے موقف اختیار کیا کہ معاشرے کو اعلیٰ معیار کی تعلیم سے بہرہ مند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نجی اسکولوں کو انتطامی اور مالی معاملات میں خود مختاری حاصل ہو اور وہ فیس کا تعین بھی خود کرسکیں کیوں کہ انہیں حکومت کی جانب سے کسی طرح کی امداد نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے فیس مقرر کرنا بلا جواز ہے اور تعلیمی اداروں کے نجی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
والدین کی پیروی کرنے والے وکیل نے اسکولوں کی جانب سے حد سے زیادہ فیس وصول کرنے پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ فیس میں اضافہ غیر قانونی اور غیر منصفانہ ہے کیوں کہ قانون سال میں صرف پانچ فیصد اضافے کی اجازت دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں نے فیس میں 10 فیصد سے زائد اضافہ کیا۔
وکیل نے بتایا کہ ان کے موکل کے بچے جنریشنز اسکول کی مختلف شاخوں میں زیر تعلیم ہیں جس کی انتظامیہ نے فیس میں من مانہ اضافہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ والدین کی جانب سے فیس کی ادائیگی میں ناکامی پر انتظامیہ نے والدین کو خط بھیجے کہ وہ فوری طور پر واجبات ادا کریں بصورت دیگر بچوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اسکول انتظامیہ کو کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنے کی ہدایت دے جس سے بچوں کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہو۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ فیس میں اضافہ سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنز (ریگولیشن اینڈ کنٹرول) آرڈیننس 2003 اور 2015 کی خلاف ورزی ہے جس کے سیکشن 6 کے تحت فیس کا اسٹرکچر طے کرنے کے لیے حکومت سے پیشگی منظوری ضروری ہے۔
یہ خبر 8 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی