امارات میں واقع 'مِنی پاکستان'
عرب امارات کے شاہانہ جلال، جدید اور بہترین سہولتوں، آسائشوں اور خوبصورتی نے کیا پاکستان کی زندگی بھلا دی ہے؟
خوبصورت موٹرویز کے کناروں پر تراش خراش کے ساتھ اگے سبزے، شفاف سڑکوں پر چمکتی دھوپ اور دونوں اطراف کھڑی دیومالائی چمکتی عمارتوں کا دل عادی ہوا جاتا ہے؟
کیا ہسپتالوں، اسکولوں، دفاتر اور بازاروں کے جگمگاتے ٹائلز زدہ فرش، صفائی کے عملے کی مستعدیاں، اور غلط کاموں پر انتظامیہ کی کڑی گرفت دماغ کو سن کیے جاتی ہیں؟
تو سمجھ لیں کہ یہ وقت وطن یاترا کا ہے. مگر اپنے دیس کا سفر باکمال لوگوں کی لاجواب سروس سے سمندر پار کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ محض ابوظہبی کے ایک الگ تھلگ اور محفوظ علاقے میں پاکستانی سفارت خانے کی طرف جانا درکار ہے۔
سیدھے الفاظ میں کہیں تو یہ وقت پاسپورٹ کی تجدید کا ہے۔
دیکھنے میں عجوبہ اور تکنیکی لگنے والی وہاں موجود ایک عمارت جاپان کا سفارت خانہ ہے، عمارت کا فن تعمیر ان کے ہاں ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کا عکس پیش کرتا ہے۔
کڑے پہروں کے بیچ کھڑی تکون شکل کی بلند و بالا عمارت دنیا کے چوہدری امریکا کے علاوہ بھلا اور کس کی ہو سکتی ہے، جہاں گاڑیوں کو چار قدم پیچھے روک کر اچھی طرح اسکیننگ سے گزارا جاتا ہے، جبکہ عمارت کے اندرونی حصے تک پہنچنے کے منتظر لوگوں کی قطاریں لگی ہیں۔
پڑھیے: کیا پینشنر ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے؟
ان شاندار اور مغرور عمارتوں کی قطاروں کو چھوڑ کر ذرا آگے کچے کی طرف نکلیں گے تو سفید رنگ کی ایک تھوڑی میلی سی، کئی سالوں سے رنگ روغن کو ترستی، پاکستانی پرچم کے سائے تلے گھر نما ایک عمر رسیدہ چھوٹی سی عمارت دکھای دے گی، وہی آپ کی منزل پاکستانی سفارت خانہ ہے۔
اگر آپ کو ٹھیک پتہ معلوم نہیں تو کوئی بڑی بات نہیں، بس ایمبیسی ایریا کا ایک چکر لگا لیں اور جن دو عمارتوں کے سامنے عوام کو پرے دھکیلتی رکاوٹیں نظر آئیں تو ان میں سے ایک اپنا گھر یعنی پاکستانی سفارت خانہ ہے۔
گلی کے نکڑ سے ہی رکاوٹیں کھڑی کر کے عمارت کے دروازے تک گاڑیوں کا جانا محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ واحد مشترک خوبی پاکستان اور امریکا کے سفارت خانوں میں ہے کہ جہاں تیسری دنیا کے چھوٹے لوگوں کو دفاتر سے ذرا پرے پرے روکا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ رکاوٹیں ترکی، مصر، لبنان حتٰی کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی سفارتی عمارتوں کے سامنے بھی نہیں۔
شاید سفید رنگ کی اس عمر رسیدہ اور گرد سے اَٹی دیواروں والی عمارت کے اندر ایک مخصوص مخلوق بستی ہے، تبھی عام پاکستانیوں کو ذرا پرے پرے رکھنے کے لیے نکڑ پر ہی خصوصی رکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔
اس نکڑ سے سفارت خانے کے دروازے تک غریب پاکستانی مزدور طبقہ سخت دھوپ میں گرم اور ننگی زمین پر بیٹھا کسی نہ کسی کام کے لیے باری کے انتظار میں بیٹھا دکھائی دے گا۔
کیا خوب ستم ظریفی ہے کہ جس شہر کی ہر سڑک، ہر بس اسٹاپ پر منتظر لوگوں کے لیے چھت اور بینچ کا وافر انتظام ہے وہاں ان غریبوں کے لیے چھت کے طور پر سبز کپڑا اور بیٹھنے کو اسٹول تک مہیا نہیں۔
سفارت خانے سے متعلقہ سڑک کی تعمیر سے لے کر صفائی تک ہر شے میں ہمارا دیسی رنگ واضح ہے، اس چوکور حصے سے پرے پرے فٹ پاتھ سے سجی اور ریت کے بغیر کھلی اور دھلی سڑکیں ہیں۔ شہر کے اندر اور باہر جگہ جگہ سینکڑوں گاڑیاں دن رات صفائی کرتی اور کچرا اٹھاتی دکھائی دیتی ہیں۔
مگر ہماری ملکیت میں موجود سڑک مٹی کے ڈھیر میں دھنس کر خاصی خستہ حال اور کسی دیہات کی ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک جیسی نظر آتی ہے۔
مزید پڑھیے: شناختی کارڈ کی تجدید کا اشتعال انگیز سوالنامہ
دروازے پر سجے لکڑی کے ایک ڈسپنسری نما ڈربے سے گزر کر(جس کی ضرورت ہمیں تو سمجھ نہ آئی) اندر جائیں تو ایک چھوٹی سی گیلری اور دو ہاتھ کے صحن سے ہوتے ہوئے ایک لکڑی کا بوڑھا دروازہ کھول کر آپ پاسپورٹ آفس میں داخل ہو جائیں گے۔
یہ دو ہاتھ کا صحن پاکستانی معماروں/مزدوروں سے کھچا کھچ بھرا ہے، جس میں سے عورتوں اور بچوں کو عین دیسی انداز میں کسی کا بھی راستہ چھوڑے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت گزرنا ہے۔
فرش پر بھی نظر نہ ہی دوڑائیں تو بہتر ہے، کیونکہ یہ فرش بھی ہماری دیسی بلدیہ کے انداز میں صفائی کے بعد بھی گدلا دکھنے کا عادی سا ہے۔
پاسپورٹ آفس میں داخل ہو جائیں تو ایک محدود سا کمرہ ہے جس میں ہر تین فٹ کے فاصلے پر پرانے اے سی نصب ضرور ہیں مگر ان پر اٹی گرد کی تہہ اور اکڑے پر آپ کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ یا تو یہ کافی عرصے سے کام کرنے کی حالت میں نہیں یا پھر بجلی کی بچت کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس پچاس فٹ کے کمرے میں دو سو کے قریب مرد، عورتوں اور بچوں کی موجودگی، جن کے پسینے اور سانسوں کی حبس زدہ گرمی آپ کو یہ ضرور یاد دلاتی ہے کہ دبئی بیٹھے ہو تو کیا ہوا، اپنا گھر بھول گئے کیا؟
یہاں بھی عورتیں اور بچے اپنی مدد آپ کے تحت کندھے سے کندھا بچا سکیں تو تھوڑا آگے چل کر کمرے کے نکڑ میں کھڑے ایک سیپریٹر کے پیچھے دو فٹ پر محیط زنان خانے تک تشریف لے جائیں۔
پڑھیے: پاکستان میں پاسپورٹ کی تجدید کا تلخ تجربہ
اس دو فٹ کی جگہ پر آمنے سامنے کچھ پرانی کرسیاں رکھی ہیں اور پردے کا معقول بندوبست ہے مگر پنکھے، اے سی، ہوا کی ترسیل اور سانسوں کی بحالی کا کوئی بندوبست نہیں۔
ایک میز گھسا کر اس پر ایک موٹی پشت والا خراب ٹی وی رکھا گیا ہے تا کہ سند رہے کہ وقت گزارنے کا مناسب بندوبست ہے مگر ٹی وی کے چلنے کے کسی طور امکانات نہیں۔
برائے مہربانی یہاں بھی دیواروں، چھتوں اور فرش کی طرف دیکھنے سے گریز کریں اور عربی شیخ بن کر ان میلے فرشوں اور چھتوں پر تنقید کرنے سے پہلے آنکھیں بند کریں، اور پاکستان میں موجود پاسپورٹ، نادرا، بجلی، پانی، گیس اور دیگر سرکاری دفاتر کا تصور کریں۔ جب پاکستان میں بھی ایسے ہی دفاتر پائے جاتے ہیں تو پھر شکوہ کیسا؟
عملے کے ماتھوں پر بھی وہی ازلی اور گاڑھی بیزاری سجی ہے جو خاموش رہ کر بھی آپ کو پرے دھکیلنے کی طاقت رکھتی ہے۔ وہی دھیرے دھیرے چلتے ہاتھ، وہی بد دلی اور بے مروتی اور وہی کڑواہٹ جو ہماری عام عادت رہ چکی ہے۔
اس سفارت خانے کو آپ اپنے دیس کا عجائب گھر بھی کہہ سکتے ہیں، کیوں کہ ہماری ہر خوبی عادت اور روایت کا عام مظاہرہ یہاں قدم قدم پر بکھرا ہے۔ اگر رش ہے اور آپ خاصے دھکے اور کندھے کھا کر اپنا مشن مکمل کر چکے ہیں، ہماری دیسی روایات اور تہذیب سے خوب اچھی طرح گلے مل چکے ہیں تو پسینہ پونچھتے، سانس بحال کرتے بچوں کو گھسیٹتے باہر نکل جائیں تاکہ دوسروں کے لیے سانس لینے میں تھوڑی سی سہی آسانی پیدا ہو سکے۔
پڑھیے: بلاک شناختی کارڈ کھلوانے کا اذیت ناک تجربہ
ساتھ ساتھ خود بھی شکر ادا کریں کہ اب اگلے پانچ یا دس سال کے لیے آپ پھر ایک سہولتوں، آسانیوں اور اخلاق سے بھری 'غیر' ریاست میں واپس آ چکے ہیں۔
پاکستان کے اگلے پچھلے سب حکمران دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں تو کیا ہوا، پاکستان تو ایک غریب ملک ہے، لہٰذا یہ چیز سفارت خانے کی شکل و صورت سے واضح ہونی چاہیے۔
اور پاکستان کے سفارتکار چاہے خود امیر علاقوں کے مہنگے گھروں میں عیش وعشرت سے رہتے ہوں، مگر محکمہء خارجہ کے پاس اس غریب ملک کے تماشہ بنے لوگوں کے لیے دنیا کے بیچوں بیچ اپنی نمائندہ عمارت کے لیے چند ٹکے بھی نہیں، درہم تو دور کی بات ہے۔
کیا آپ بھی سرکاری دفاتر میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں؟ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔
تبصرے (14) بند ہیں