’حافظ سعید کونسے انڈے دیتا ہے جو ہم اسے پال رہے ہیں‘
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کے دوران ملک میں موجود غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے اجلاس کے دوران حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا محمد افضل نے ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ ہم آج تک حافظ سعید جیسے لوگوں کو ختم نہیں کرسکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید سے متعلق ایسا تاثر قائم کیا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستانی وفد کسی ملک جائے تو وہاں کے حکام یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات حافظ سعید کی وجہ سے خراب ہیں، جبکہ ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہمیں شدت پسند ملک قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: ’شدت پسندوں کے خلاف کارروائی یا بین الاقوامی تنہائی‘
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حافظ سعید کونسے انڈے دیتا ہے جو ہم اسے پال رہے ہیں، جبکہ حافظ سعید وہ شخص ہیں جو دنیا بھر میں تو پھر رہے ہیں لیکن پاکستان میں وہ کہیں نظر نہیں آتے۔‘
حافظ سعید کےخلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا،رانا افضل
دوسری جانب رانا افضل نے ڈان کو حافظ سعید کے خلاف کارروائی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قانون سازوں نے حافظ سعید کے خلاف کارروائی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، جبکہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
تاہم انہوں نے اپنے الفاظ کی تصدیق کی کہ ’حافظ سعید کے باعث بھارت کو، پاکستان کو عالمی سطح پر بلیک میل کرنے کا موقع ملا، اگر ان سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں تو ہم انہیں یہ اجازت کیوں دے رہے ہیں کہ وہ اپنی موجودگی سے پاکستان کو نقصان پہنچائے؟‘
رانا محمد افضل اس وفد میں شامل تھے جس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق آگاہی کے لیے فرانس کا دورہ کیا تھا۔
قبل ازیں میڈیا رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ حکومت نے انتہائی محتاط اور غیر معمولی طور پر واضح طریقے سے عسکری قیادت کو یہ پیغام پہنچادیا ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے پاکستان تنہا ہورہا ہے جبکہ ریاستوں کی جانب سے کئی اہم معاملات پر کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے کا بھی تقاضہ کردیا۔
تاہم وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے ان رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گیا کہ یہ رپورٹس من گھڑت ہیں اور ان میں کوئی صداقت نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں