حقوقِ معذورین: اسلام، مغرب اور پاکستان
عوامی فلاح و بہبود اور حقوق کی پاسداری کرنا کسی بھی فلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ فلاحی ریاست میں حاکمِ وقت عوام کی بنیادی ضروریات، مثلاً تعلیم، صحت، روزگار وغیرہ کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔
معاشرے کے ان تمام کمزور طبقات، خصوصاً معذورین کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنانا بھی ایک فلاحی ریاست کا اہم ترین فریضہ شمار ہوتا ہے۔
اسلام ہمیں ایک کامل فلاحی ریاست کا تصور فراہم کرتا ہے۔ 1400 سال پہلے نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں احکاماتِ الٰہی کی روشنی میں فلاحی ریاست کی بنیاد ڈالی تھی جس میں حاکم وقت عوام کے آگے جوابدہ تھے اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری تھی۔
مغربی اقوام معذورین کے لیے معاشرتی شمولیت, تعلیم برائے معذور افراد، خدمت گاروں کی فراہمی اور غیر امتیازی قوانین کے ذریعے انہیں ملک کا فعال اور مفید شہری بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کر رہی ہیں۔
پر اگر ہم تھوڑا غور کریں تو مذکورہ تصورات اس اسلامی ریاست کے ہی معلوم ہوتے ہیں جس کی بنیاد مدینہ منورہ میں رکھی گئی تھی۔
غیر امتیازی قوانین
ایک مرتبہ حضرت محمد ﷺ مکہ معظمہ کے چند بڑے سرداروں کے ساتھ تشریف فرما تھے اور تبلیغ اسلام میں مصروف تھے کہ اتنے میں ایک نابینا صحابیؓ حضرت ام مکتومؓ اس مجلس میں حاضر ہوئے اور اسلام کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا، مگر ان نابینا صحابی کی مداخلت چند لوگوں کو ناگوار گزری۔
پڑھیے: معذور نہیں، منفرد بچے
اللہ تعالیٰ کو ایک معذور کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک پسند نہیں آیا اور اپنے حبیب ﷺ کے ذریعے انسانوں کو معاشرے کے طاقتور، دولت مند اور صحت مند افراد کے مقابلے میں بے اثر، کمزور اور معذور افراد سے فرق روا رکھنے پر تنبیہ کی کہ ”وہ ترش رو ہوئے، اور منہ پھیر بیٹھے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا ہے۔“
اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معذور افراد کے حقوق کی پامالی پسند نہیں، لہٰذا اس نے فوراً اپنے حبیب ﷺ پر معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے حکم نازل کیا.
آج ترقی یافتہ ممالک معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کے غیر امتیازی قوانین ترتیب دے چکے ہیں، مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اولاً معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، ثانیاً اگر کوئی ایکٹ موجود ہے تو بھی اُس پر کسی طور عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
مثلاً قومی بحالی و روزگار برائے معذوران ایکٹ 1981 کے تحت تمام نجی و سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا 2 فیصد کوٹہ معذور افراد کے لیے مختص ہے۔
اس ایکٹ کے مطابق پاکستان میں موجود معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں 2 فیصد کوٹہ، علاج کی مفت سہولتیں، اور اعضاء کی بحالی کے اقدامات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جب کہ نجی اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی فراہمی کو لازم قرار دیا گیا۔
سرکاری اداروں میں کسی حد تک اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے مگر نجی ادارے اس قانون پر بالکل بھی عملدرآمد نہیں کرتے۔ حکومتی سطح پر کوئی ایسا مانیٹرنگ سسٹم بھی موجود نہیں جو نجی اداروں کی اس قانون شکنی پر انہیں سرزنش کرے اور بھاری جرمانے بھی عائد کرے۔
1998 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی کُل آبادی کا 2.49 فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل تھا، لیکن بد قسمتی سے ملک میں جاری دہشت گردی، قدرتی آفات (زلزلے، سیلاب وغیرہ) اور ٹریفک حادثات کی وجہ سے معذور افراد کی تعداد مزید بڑھ چکی ہے۔
عالمی ادارہء صحت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 10 فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے، چنانچہ ملک میں معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے قانون سازی انتہائی ضروری بن چکی ہے۔
معاشرتی شمولیت
حضرت ابن ام مکتومؓ نابینا صحابی تھے۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اجازت مانگی کہ مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے، مگر آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
"اے ابن ام مکتومؓ، کیا تم اذان سنتے ہو؟ اگر اذان سنتے ہو تو مسجد میں آکر نماز پڑھا کرو۔"
اسلام کے سنہرے دور میں مسجد مسلمانوں کے اجتماع کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ اس وقت مسجد صرف مذہبی تعلیم کے لیے مختص نہیں تھی بلکہ وہاں معاشرتی اور معاشی روابط بھی بڑھائے جاتے تھے۔
مزید پڑھیے: بہادر اور بلند ہمت طاہرہ یوسفی کی کہانی
نبی اکرم ﷺ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ حضرت ابن ام مکتومؓ اپنی معذوری کی وجہ سے معاشرے سے کٹ کے گھر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت ابن ام مکتومؓ کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔
ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ کمیونٹی سطح کے ادارے بھی اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ نتیجتاً وہاں سڑکوں پر معذوروں کے لیے قابلِ رسائی ٹرانسپورٹ رواں دواں نظر آئے گی۔
ایسے ممالک میں ہر عمارت کو تعمیر کرتے وقت میں ایسی سہولیات کا خاص کیا جاتا ہے جس کی بدولت معذورین کو کسی قسم کی تکلیف اور مشکل سے دوچار ہونا نہ پڑے۔ لہٰذا ہر عمارت میں معذورین کے لیے قابل رسائی راستے بنائے جاتے ہیں۔ ہر جگہ لفٹس اور چڑھائی والے راستوں (damps) کی بدولت معذور افراد معاشرے میں ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ مثلاً رکشہ، وین، بس اور ریل گاڑی معذور افراد کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ملک میں شاذ و نادر ہی کسی سرکاری عمارت میں ڈیمپس، لفٹس، قابل رسائی ٹوائلٹس، ابھرے ہوئے نقشے (Tactile Maps) اور اشاروں کی زبان کے بینرز پائے جاتے ہوں گے۔
اس طرح معذور افراد گھروں تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں، اور ہر قسم کی سماجی اور معاشی سرگرمی سے بھی کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
خدمت گار کی فراہمی
حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا جس پر آپ نے اُس شخص سے استفسار کیا۔ اُس شخص نے حضرت عمر فاروقؓ کو بتایا کہ اُس کا دایاں بازو ایک جنگ میں کٹ چکا تھا، اس لیے وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے پر مجبور ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فوراً اُس شخص کے لیے ایک خدمت گار مہیا کیا اور اُس خدمت گار کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا۔
کئی مغربی ممالک میں وہ شدید معذورافراد جو اپنے ذاتی کام مثلاً کپڑے بدلنا، بیت الخلا جانا، ہاتھ منہ دھونا وغیرہ سر انجام نہیں دے سکتے، اُن کے لیے معذوروں کی بحالی کے اداروں کے مقرر کردہ خدمت گار انہیں ہر قسم کی مدد مہیا کرتے ہیں۔
اس خدمت گاروں کی تنخواہ حکومت ادا کرتی ہیں۔ خدمت گار کی بدولت شدید معذور افراد بھی معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے معاشی طور پر مستحکم ہونے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ بطور خدمت گار غیر معذور اور صحت مند افراد کے روزگار کا بھی بندوبست ہوجاتا ہے۔
حکومتِ پنجاب نے حال ہی میں معذور افراد کی مالی امداد کے لیے خدمت کارڈ کا اجرا کیا ہے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دیگر ممالک کی طرح خدمت گار نظام قائم کرے اور خدمت گار کا معاوضہ بیت المال سے ادا کرے تاکہ شدید معذور افراد اپنے گھر والوں اور معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
جانیے: اپنی مفلوج بہن کی تیمارداری نے مجھے کیا سکھایا؟
تعلیم برائے معذور افراد
مسجدِ نبوی ﷺ میں صحابہ کرامؓ کی درس و تدریس کے لیے نبی اکرم ﷺ نے ایک چبوترہ مختص کیا تھا، جو صفہ کا چبوترہ کہلاتا تھا۔ یہاں پر جو صحابیؓ تعلیم حاصل کرتے تھے، وہ تاریخ اسلام میں اصحابِ صفہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت ابن ام مکتومؓ جو نابینا صحابی تھے، وہ بھی اسی چبوترے پر نبی اکرم ﷺ سے تعلیم حاصل کرتے تھے۔
1400 سال پہلے تعلیم برائے معذور افراد کی اس سے بہترین مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ معذور اور غیر معذور افراد سب ساتھ اکھٹے تعلیم حاصل کریں تاکہ معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ معذوری سے متعلق آگاہی حاصل کر سکے۔
پاکستان میں معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست خصوصی تعلیمی اداروں میں کیا جاتا ہے، لیکن ان اداروں کا دائرہ کار صرف بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔ چھوٹے شہروں اور دور دراز دیہاتوں میں تعلیم کی محرومی سے معذور بچوں کو اپنے اندر موجود بے پناہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا۔
اس طرح وہ بچے معاشرے کا ایک ناکارہ فرد بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، حالانکہ کہیں نہ کہیں ان بچوں میں ایسی قابلیت ضرور موجود ہوتی ہے کہ جس سے وہ معاشرے کی مشین کا کوئی نہ کوئی پرزہ ضرور بن سکیں اور مہذب معاشرے میں عزت نفس کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
خصوصی تعلیمی اداروں میں تعیناتی کا معیار ایم اے، ایم ایڈ اور بی ایڈ اسپیشل ایجوکیشن ہے۔ اسپیشل ایجوکیشن پڑھنے سے اساتذہ کرام کو معذور بچوں کے مسائل سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے مگر وہ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، انگلش اور ریاضی جیسے مشکل مضامین میں مہارت نہیں رکھتے، یعنی اساتذہ کرام Subject Specialists نہیں ہوتے۔
نتیجتاً ان اداروں میں پڑھنے والے معذور بچوں کی تعلیمی قابلیت پست رہ جاتی ہے۔ نیز ان اداروں میں ایسے ماہرین کی بھی شدید کمی ہے جو اُن بچوں کی رہنمائی کرسکیں کہ انہیں اپنی معذوری کے مطابق مستقبل میں روزگار کے حوالے سے کون سے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔
فلاحی معاشرہ اُس وقت تشکیل پاتا ہے جب معاشرے کے تمام افراد کو بلا امتیاز اُن کے حقوق ملنا شروع ہو جائیں۔ صنف، عمر، غربت، امارت اور معذوری کی بنا پر تفریق سے معاشرہ گروہ در گروہ تقسیم ہو جاتا ہے۔
آج مغربی اقوام اسلام کے سنہری اصولوں پر گامزن ہو کر معذور افراد کے حقوق کی پاسداری کر رہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان نجانے کب اسلامی حقوق کی پاسداری کرے گا۔
تبصرے (6) بند ہیں