• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

’کشیدگی بڑھانا کسی کے مفاد میں نہیں‘

شائع October 2, 2016

پاک فوج نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ کشیدگی میں اضافہ اور اشتعال انگیز اقدامات کسی کے مفاد میں نہیں۔

پاک فوج کی جانب سے آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے اطراف دہشت گردوں کے لانچ پیڈز پر سرجیکل اسٹرائیکس کے ہندوستانی دعووں کو غلط ثابت کرنے کے لیے صحافیوں کو اگلے مورچوں پر ان مقامات کا دورہ کرایا۔

اس موقع پرپاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کشیدگی بڑھانے اور جنگ کی باتیں کرنا کسی کے مفاد میں نہیں، ہم نے کبھی کشیدگی میں اضافہ نہیں کیا اور نہ ہی ایسا چاہتے ہیں، جنگی جنون پر مبنی تمام بیانات ہندوستان کی جانب سے آرہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: یقین ہے بھارت کی طرف بھی جانی نقصان ہوا: عاصم باجوہ

پاک فوج کی جانب سے 20 میڈیا آرگنائزیشن سے تعلق رکھنے والے 40 ملکی و غیر ملکی صحافیوں کو کنٹرول لائن پر ان سات میں سے دو مقامات کا دورہ کرایا گیا جہاں ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

صحافیوں کو کنٹرول لائن کے بھمبر سیکٹر میں باغ سر کے علاقے اور ہاٹ اسپرنگ سیکٹر کے مندول سیکٹر کا دورہ کرایا گیا اور یہی وہ مقامات ہیں جہاں جمعرات 29 ستمبر کو علی الصبح ہندوستان کی فائرنگ سے دو پاکستانی جوان جاں بحق ہوئے تھے۔

صحافیوں نے اس موقع پر مقامی کمانڈرز اور فوجی ترجمان کی بریفنگ سننے کے علاوہ مقامی افراد سے بھی بات کی جنہوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ان علاقوں میں کسی طرح کی مشکوک سرگرمی یا سرجیکل اسٹرائیکس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔

اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ ’سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی بھی نشان موجود نہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی دعووں میں کوئی صداقت نہیں‘۔

انہوں نے بھارت کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے دعوے کو شفاف طریقے سے ثابت کرے اور دوسروں کو بھی اس دعوے پر تحقیق کرنے کی اجازت دے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی تو 28 اور 29 ستمبر کی درمیانی شب کنٹرول لائن پر سیز فائر کی ہونے والی خلاف ورزی کی تحقیقات میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کررہی ہے جبکہ صحافیوں کو بھی اس مقام پر لائی تاکہ وہ ہندوستانی دعووں کا اپنے طریقے سے پرکھ سکیں لیکن بھارت کیوں اپنے لوگوں کو سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں کی تحقیقات نہیں کرنے دے رہا؟

واضح رہے کہ اُڑی حملے کے بعد ہندوستانی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے کہا تھا کہ حملہ آوروں سے ملنے والے ہتھیاروں پر پاکستانی نشانات موجود ہیں تاہم ان کے ان دعووں کو انڈین میڈیا نے ایکسپوز کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے فوج سے متعلق خبریں بغیر اجازت نشر نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجودہ نے ہندوستان سے کئی سوالات بھی کیے اور کہا کہ : جن سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ کیا گیا ان کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں کہاں گئیں؟ سرجیکل اسٹرائیکس سے ہونے والا نقصان کیوں نظر نہیں آتا؟ اتنے دشوار گزار علاقے میں کیسے محض پانچ گھنٹوں کے اندر فوجی دستے آئے اور واپس چلے گئے جبکہ انہیں کسی مزاحمت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا؟

مزید پڑھیں: سرجیکل اسٹرائیکس کابھارتی دعویٰ 'جھوٹا'، فائرنگ سے 2 پاکستانی فوجی جاں بحق

یاد رہے کہ ہندوستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے فوجیوں کی جانب سے کیے جانے والے سرجیکل اسٹرائیکس کی وجہ سے دہشت گردوں اور ان کی معاونت کی کوشش کرنے والوں کو شدید نقصان پہنچا۔

عاصم باجوہ نے کہا کہ ’سرحد پار سے کوئی بھی اس طرف نہیں آیا اور اس روز محض فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کنٹرول لائن کے ذریعے دراندازی کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دہشت گردوں کو اس پار بھیجنا اس کی پالیسی ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستانی وزیر اعظم کشمیر کے مسئلے پر پردہ ڈالنے کے لیے سیز فائر کی خلاف ورزی کو سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر اپنے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے خبردار کیا کہ مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھنے سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے جس میں 2 لاکھ سے زائد فوجی اہلکار حصہ لے رہے ہیں اور آپریشنز اپنے آخری مراحل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ ہٹی تو یہ خطے کے امن و استحکام کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔

لاپتہ فوجی

لاپتہ ہندوستانی فوجی اہلکار چندو بابولال چوہان جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کی تحویل میں ہے، اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہندوستان نے اس معاملے پر ڈی جی ایم او اجلاس کی درخواست کی ہے۔

ہندوستان کا کہنا ہے کہ چوہان نادانستہ طور پر کنٹرول لائن کی دوسری جانب چلاگیا تھا اور اسے پاکستانی فوجیوں نے گرفتار کرلیا۔

مزید پڑھیں: ایل او سی سے ایک بھارتی فوجی گرفتار، متعدد ہلاک

چوہان کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے پاک فوج کا موقف گزشتہ چند دنوں میں مختلف رہا ہے ، پہلے اس حوالے سے تردید کی گئی پھر یہ کہا گیا کہ اسے ڈھونڈا جارہا ہے۔

اب عاصم باجوہ کا یہ کہنا ہے کہ نادانستہ طور پر سرحد پار کرنے کا جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی تصدیق اور تحقیقات کا باقاعدہ طریقہ کار ہوتا ہے جس پر عمل کیا گیا۔

تاہم فوجی ترجمان نے واضح طور پر اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ چوہان پاکستان کی تحویل میں ہے یا نہیں۔

کنٹرول لائن کے زیادہ تر علاقوں کے ذمہ دار فوج کے 23 ویں ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل چراغ حیدر نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیکس کا ہندوستانی دعویٰ بعید از قیاس ہے اور کسی ذمہ دار فوجی افسر سے اس طرح کے دعوے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن پر سیکیورٹی اتنی سخت ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی نوٹس میں آجاتی ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ ہندوستانی فوجی سرحد پار کرکے آزاد کشمیر آئے اور پھر واپس چلے گئے۔

ہندوستانی دعویٰ جھوٹ کا پلندہ

آزاد کشمیر کے بلدیاتی کونسلر مرزا عبدالوحید نے باغ سر میں ڈان کو بتایا کہ 28 اور 29 ستمبر کی درمیانی شب دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلے کے سوا کچھ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سرجیکل اسٹرائیکس ہوتی کیا ہیں؟

باغ سر کے ایک اور رہائشی رفیع شہزاد نے بتایا کہ ہندوستان کا دعویٰ جھوٹ کا پلندہ ہے جبکہ ایک اور رہائشی محمد لیاقت کا بھی یہی موقف تھا۔

کنٹرول لائن پر بھارتی پوسٹ سے 2 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود مندول میں مقامی بینک کے ملازم نعمان کبیر نے بتایا کہ وہ حیران ہے کہ کس طرح ہندوستانی رہنما اپنی قوم کو بے وقوف بنارہے ہیں۔

سعودی عرب سے چھٹیوں پر آئے ہوئے شاہد محمود نے بتایا کہ اس علاقے میں کاروبار زندگی معمول کے مطابق جاری رہنا از خود ہندوستانی دعووں کا جواب ہے، بھارت کی دھمکیاں ہمیں ڈرا نہیں سکتیں۔

ایک مقامی شخص اکثیر احمد نے بتایا کہ اس رات شدید فائرنگ ہورہی تھی جس کی وجہ سے تمام لوگ جاگ گئے تھے۔

یہ خبر 2 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024