کیا والدین بچوں کے ذہنی مسائل نظر انداز کر رہے ہیں؟
اردو کے استادِ محترم نے پانچویں جماعت کے طلبا کو ایک مضمون لکھنے کو کہا، جس کا عنوان تھا،"آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں؟"
تمام طلبا کو مضمون لکھنے کے لیے آدھے گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ ساجد نے لکھا کہ وہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بنے چاہتا ہے، عامر انجنئر جبکہ شفیق کا خواب تھا کہ وہ پاپ سنگر بنے گا۔ جب ریحان کی باری آئی تو اُس نے اٹکتے اٹکتے بتایا کیہ وہ بڑا ہو کر T.V.بننا چاہیے گا۔
ریحان کا جواب سُن کر استاد محترم چونک گئے اور پوچھا کہ ریحان بیٹا! ٹی وی تو بے جان شے ہے آپ بڑے ہوکر ٹی وی کیوں بننا چاہتے ہیں؟ریحان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ جھجھکتے ہوئے اُس نے اپنا لکھا ہوا مضمون اُستاد محترم کو تھما دیا۔ اُستاد محترم نے مضمون کو پڑھنا شروع کیا اور حیران رہ گئے۔ آپ بھی ریحان کا مضمون پڑھیے۔
"آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں؟"
میرا نا م ریحان ہے۔ بد قسمتی سے میں اپنے گھر میں سب سے چھوٹا ہوں اور سب سے زیادہ تنہا بھی ہوں کیونکہ میرے گھر کے دیگر تمام افراد اپنے اپنے مشاغل میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں میرے اکیلے پن کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
میری امی جان مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے مارننگ شوز کی دیوانی ہیں۔ وہ صبح سویرے ٹی و ی کے آگے براجمان ہوجاتی ہیں۔ صحت و تندرستی کو برقرار رکھنا ہو یا حُسن کو چار چاند لگانے ہوں، مزیدار کھانوں کی تراکیب جاننی ہوں یا لباس کی آرائش و زیبائش کے جدید انداز اپنانے ہوں، شادی بیاہ کے رسم ورواج میں نت نئی اختراعات دریافت کرنی ہوں یا بچوں کی پرورش میں ماہرین کے ٹوٹکے آزمانے ہوں، مارننگ شوز ہر طرح کی معلومات بہم پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے امی جان ہر چینل کا مارننگ شو تھوڑا تھوڑا کر کے مسلسل دیکھتی رہتی ہیں۔
اکژ میرا دل چاہتا ہے کہ امی جان میرے لیے بھی وہی مزیدار ڈشز بنائیں، جو وہ ٹی وی پر انتہائی دلچسپی سے دیکھتی ہیں اور بچوں کے ذہنی رجحانات پر ماہرین کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے کبھی وہ میری نفسیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔
میں جب اسکول سے گھر واپس آتا ہوں تو ٹی وی کے ریمورٹ کا کنٹرول اپیا کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ کالج سے واپسی کے بعد اپیا کا واحد مشغلہ ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے اور فلمیں دیکھنا اور پھر دوستوں کے ساتھ ٹیلی فون پر ان ڈراموں اور فلموں کی کہانیوں اور کرداروں پر گھنٹوں لا حاصل تبصرے کرنا ہوتا ہے۔
شام کو ٹی وی کے آگے میرے بڑے بھائی کا راج ہوتا ہے، یونیورسٹی کی کٹھن پڑھائی کے بعد ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لیے وہ باقاعدگی سے اسپورٹس چینل دیکھتے ہیں، اس دوران وہ وقتاً فوقتاً موبائل فون پر دوستوں سے ایس ایم ایس چیٹنگ بھی کرتے رہتے ہیں۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ بھائی جان کوئی گیم کبھی کبھارمیرے ساتھ بھی کھیل لیا کریں لیکن وہ مجھے ہمیشہ چھوٹو سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
رات کو ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے ٹاک شوز کے آگے ابو جان تشریف فرما ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ان ٹاک شوز میں سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی اک دوجے پر الزامات کی بوچھاڑ بہت پسند ہے۔ سیاسی ٹاک شوز کے نشریاتی دورانیے میں گھر کے کسی بھی فرد کی مداخلت انہیں نہایت ناگوار گزرتی ہے۔
اسی لیے تو میں سوچتا ہوں کہ کاش میں ریحان نہیں بلکہT.V ہوتا جس کے والدین نہایت توجہ اور پیار سے صرف اُسی کی باتیں سنتے اور سہراتے اور بہن بھائی اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ فرصت کے لمحات نکال کر اُس کی خوشیوں میں اضافہ کرلیتے کاش کہ میں ریحان نہیں بلکہ ایک بے جان T.Vہوتا۔
یہ تصویرکا صرف ایک ہی رُخ ہے۔ دوسرا رخ اس سے بھی زیادہ دردناک ہے۔
پندرہ سال پہلے شبانہ اور عرفان کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو بیٹوں اور بیٹی سے نوازا۔ عرفان ایک پرائیوٹ فرم میں اکاؤنٹس آفیسر تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عرفان کی محدود آمدنی بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی تھی۔ گھریلو اخراجات دن بدن بڑھتے جارہے تھے اُس وقت شبانہ نے فیصلہ کیا کہ وہ بیوٹیشن کا کورس کر کے گھر کے ایک کمرے میں چھوٹا سا بیوٹی پارلر کھول لیں گی۔
اس مقصد سے عرفان نے آفس سے تھوڑی بہت رقم قرضے پر اٹھا لی جبکہ بقیہ رقم کا انتظام شبانہ نے اپنا زیور بیچ کر کیا۔ آغاز میں شبانہ کو بیوٹی پارلر سے کچھ خاص منافع نہیں ہوا۔ لیکن ایک سال کے بعد اُس کے کسٹمرز میں بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ آمدنی میں اضافے کے ساتھ دونوں میاں بیوی کے سر بستہ خوابوں نے جنم لینا شروع کیا۔ ضرورت سے آسائشات اور پھر تعیشات کا سفر۔
شبانہ اور عرفان شب و روز دولت کے پیچھے بھاگنے لگے۔ تینوں بچے شہر کے مہنگے ترین اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ لیپ ٹاپ موبائل ٹیبلٹ، ہر شے اُن کی رسائی میں تھی بس والدین کی عملی تربیت انہیں میسر نہ تھی۔ بچوں کے معاملات دیکھنے شبانہ نے فل ٹائم Maid رکھی ہوئی تھی۔
بد قسمتی سے پچھلے سال شبانہ کو جگر کا کینسر ہوا۔ ڈاکٹر کی سر توڑ کوششوں کے باوجود وہ جان کی بازی ہار گئی۔ میت کے گرد اس کے بچے آہ و بکا کر رہے تھے۔
اُس وقت ایک رشتہ دار بوڑھی خاتون نے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے انہیں ماں کی بخشش کے لیے دعائے مغفرت پڑھنے کو کہا۔ افسوس کے ساتھ تینوں بچوں کو دعائے مغفرت نہیں آتی تھی۔ وہ خاتون دکھ سے بولی "بچوں! اگر تمہیں دعائے مغفرت نہیں آتی تو اس میں قصور تمہارا نہیں بلکہ تمہارے والدین کا ہے، جنہوں نے آپ کو دنیا کا ساز و سامان خود مہیا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی مگر اپنی آخرت کا سامان خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔"
ان دونوں واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی زمانہ بچوں کی دنیا کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ جو والدین اپنے مشاغل میں کھو کر یا دولت کے پیچھے دوڑتے ہوئے بچوں کو بھول جاتے ہیں وہ بچے تنہائی کا شکار ہو کر جلد یا بدیر جسمانی، ذہنی یا نفسیاتی مسائل سے دو چار ہو جاتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچوں میں ڈپریشن اور احساس محرومی کا رجحان بڑھتا جا رہا۔ کبھی گھریلو تنازعات اس ڈپریشن میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں تو کبھی بچوں کو یا ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنے کا عمل اس افسوس ناک صورتحال کا سبب بنتا ہے۔
اس مہنگائی کے دور میں گھر کی گاڑی حقیقتاً ایک پہیے پر نہیں چل سکتی مگر اگر گاڑی کے دیگر حساس حصوں کا خیال نہ رکھا جائے تو بھی اس گاڑی کا چلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت اور ان کے لیے ایک مقررہ وقت ضرور مختص کیا جانا چاہیے۔ والدین اس کام کو آپس میں بانٹ کر بھی انجام دے سکتے ہیں۔
بچوں میں کسی بھی قسم کی احساس تنہائی پیدا نہ ہونے دیں بلکہ گھر پر ہی ایسی چھوٹی موٹی سرگرمیوں کا اہتمام کریں جس سے بچوں کو تنہائی کا احساس پیدا نہ ہو۔ ان سرگرمیوں میں ان کے معمولی سے معمولی کام کی بھی ستائش کریں اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو مزید ابھارنے کی کوشش بھی کریں۔
زمانہ حال کے بچوں کو ماڈرن ٹیکنالوجی کے بد اثرات سے بچانے کے لیے والدین کو اپنا قیمتی وقت اُن کے ساتھ صرف کرنا چاہیے لہٰذا بچوں کو کتابی علوم کے ہمراہ عملی تربیت بھی چاہیے، جو صرف والدین ہی انہیں مہیا کر سکتے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں