زر، زمین اور زن
گذشتہ صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں "زمین اس کی جو ہل چلائے" کا نعرہ بہت مقبول ہوا تھا لیکن بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ سندھ میں یہ نعرہ صوفی شاہ عنایت نے 17 ویں صدی میں لگایا تھا اور ایک جاگیردارانہ معاشرے کو مساوات پر مبنی زرعی معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
مگر اس وقت کے جاگیرداروں نے ان کی کوشش ناکام بنا دی تھی اور آج اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کی 64 فی صد زرعی زمینوں پر پانچ فی صد بڑے خاندانوں کا قبضہ ہے اور 50 اعشاریہ 8 فی صد کسان گھرانے زمین سے محروم ہیں۔
غربت کے خاتمے کے لیے زرعی اصلاحات یا غریب ہاری مردوں اور عورتوں کو زمین کے مالکانہ حقوق دینے ضروری ہیں۔ حالیہ اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں کو خوراک، توانائی، پانی، ماحولیات اور نگہداشت کے مسائل سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
ان بحرانوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم نے ترقی کا جو ماڈل اپنایا تھا، وہ ناکام ہو گیا ہے۔ یہ پدرسری ماڈل صنفی بصیرت سے محروم اور انسانی حقوق سے لاتعلق ہے۔ اس لیے قانونی اصلاحات اور پالیسیوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
پڑھیے: معاشی خودکفالت، خواتین کے مسائل کا حل
عالمی سطح پر پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے کنونشن CEDAW کی توثیق کر رکھی ہے۔ اس کے شق 14، 15 اور 16 کے مطابق زرعی قرضوں، مارکیٹ کی سہولتوں، مناسب ٹیکنالوجی، زرعی اصلاحات اور آبادکاری کی اصلاحات میں عورتوں کو مساوی حصہ اور مقام ملنا چاہیے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، یہاں اگر ہم عورتوں اور مردوں کو مساوی انسان اور مساوی شہری کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں تو عورتوں کے پاس بھی زرعی زمینوں کی ملکیت اور اختیار کا ہونا ضروری ہے۔
عورت اور مرد کے درمیان عدم مساوات کی سب سے سنگین شکل زمین اور جائیداد کی ملکیت اور اختیار میں فرق ہے کیوں کہ اسی سے ہی سماجی حیثیت اور سیاسی طاقت کا تعین ہوتا ہے۔
2010 میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کی جاری کردہ پالیسی دستاویز کے مطابق ہمارے ہاں صنفی توازن اور عورت کی خود مختاری کے لیے سب سے زیادہ اہمیت عورت کی ملازمت یا روزگار کو دی جاتی ہے اور اس بات کو فراموش کر دیا جاتا ہے کہ مردوں اور خاندانوں کا اقتصادی مرتبہ زمین اور جائیداد کی ملکیت اور اختیار کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے، چنانچہ عورتوں کی ترقی کی پیمائش صرف ملازمت، تعلیم اور صحت سے کرنا کافی نہیں ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کو تعلیم، صحت کی سہولتیں اور غیر زرعی اثاثے فراہم کرنا آسان ہے اور یہ عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر بھی ہے لیکن انہیں زمین دینے کا مطلب انہیں طاقت اور اختیار دینا ہو گا جو مردوں کو گوارا نہیں۔
پڑھیے: حضرات! خواتین کی ترقی کے لیے کام کریں
ویسے تو صنعتی معاشروں میں تعلیم، صحت اور ملازمت یا کاروبار ہی عورت کو با اختیار اور طاقتور بنا دیتا ہے مگر جنوبی ایشیائی مرد ذہین، تعلیم یافتہ اور اپنے برابر یا اپنے سے زیادہ کمانے والی عورتوں سے مرعوب رہتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ وقت تو گزارنا چاہتے ہیں مگر شادی نہیں کرنا چاہتے اور اگر شادی کر بھی لیں تو اپنے احساسِ کمتری کی بدولت ان کی زندگی عذاب کر دیتے ہیں۔
خیر یہ تو صنعتی اور شہری معاشروں کی باتیں ہیں مگر مکان یا جائیداد کا مالک ہونا وہاں بھی عورت کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا، شادی سے پہلے وہ باپ کے گھر میں رہتی ہے اور شادی کے بعد شوہر کے گھر میں۔ شادی شدہ عورت اس حوالے سے ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے کہ اگر کبھی شوہر کو دوسری شادی کا شوق چرایا یا کسی بھی وجہ سے اس نے بیوی کو طلاق دے دی تو کیا ہوگا۔
پاکستان میں چند دقیانوسی رسوم و رواج کے پیرہن میں عورتوں کے حقوق پر ضرب کاری صدیوں سے چلتی آ رہی ہے۔ بادشاہوں کا دور ہو یا جمہوریت کی آزاد فضا ہو، عورتوں کو با اختیار بنانے کی کوئی کاوش بخشی نہیں جاتی بلکہ فرسودہ تاریخی حوالوں سے عورتوں کو ان کے حقیقی اور جائز حقوق فراہم ہی نہیں کیے جاتے۔
سندھ اور پنجاب میں ملکیتوں کی تقسیم کے خوف سے اکثر جاگیردار گھرانوں میں حق بخشوانے کی رسومات چلتی آ رہی ہیں۔ اس فرسودہ رسم کو قرآن سے شادی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں خواتین صرف حویلیوں تک ہی محدود ہو جاتی ہیں۔ ان رسومات کے حوالے سے بار ہا انکار بھی کیا جاتا ہے لیکن اب ایسی حویلیوں کے راز بڑی حد تک افشاء ہو چکے ہیں۔
شروع سے ہی ایک عورت جاگیری سیاست میں ایک پیادہ تو رہی ہے مگر کبھی بھی اس شطرنج کی بساط پر اپنا اختیار حاصل نہ کر سکی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواہ عورت محلوں میں شہزادی ہو یا مٹی میں کام کرنے والی ایک ہاری ہو، دونوں کو وراثت کا حق سرے سے ہی نہیں مل سکا۔
پڑھیے: خواتین: روشن مستقبل کی امید
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر عورت جائیداد کی مالک ہو، مالکِ مکان ہو، اس کی اپنی زمینیں ہوں تو خاندان اور معاشرے میں اس کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔
عورت کو زمین اور جائیداد کے مالکانہ حقوق ملنا تحریک نسواں کا مسئلہ بھی ہے اور بین الاقوامی قانون بھی اس حق کو تسلیم کرتا ہے مگر افریقا اور جنوبی ایشیاء میں عورت کو بڑے سوچے سمجھے طریقے سے اس حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ شادی شدہ جوڑا جب مکان بنائے یا خریدے تو ملکیتی حقوق میاں بیوی دونوں کے نام ہونے چاہئیں تا کہ دونوں میں سے ایک بھی عدم تحفظ کا شکار نہ ہو۔
اسلام میں عورت کو وراثت میں حصہ دیا گیا ہے۔ باپ کی وفات کے بعد بیٹی کو اور شوہر کی وفات کے بعد بیوی کو ان کے چھوڑے ہوئے ترکہ میں سے حصہ ملتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ بھائی زمینوں میں سے بہن کو حصہ نہیں دیتے، گو کہ اب اس حوالے سے قانون بھی بن چکا ہے مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔
برادریوں اور رشتے داروں سے باہر شادی نہ کرنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی صورت میں خاندانی جائیداد وراثت کی صورت میں خآندان سے باہر جانے کا خدشہ ہوتا ہے، جو کہ ایسے معاشرے میں ناقابلِ برداشت ہے جہاں زمین اور رقبے آپ کی حیثیت اور آپ کی طاقت کی ضمانت ہوں۔
پڑھیے: پاکستانی خواتین کی موجودہ نسل تبدیلی لائے گی
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور دیہی علاقوں کے غریب اور ناخواندہ لوگوں کو غربت سے بچانے والی اہم ترین چیزوں میں سے ایک زمین ہے۔ اس لیے ہاریوں اور بالخصوص عورتوں کے لیے زمین کے مالکانہ حقوق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
یہ عورتیں دن میں سولہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہیں۔ گھر کے کام کے ساتھ یہ کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ عام طور پر پورا گھرانہ مزدوری کرتا ہے مگر اجرت گھرانے کا مرد سربراہ وصول کرتا ہے۔ اگر عورت کو الگ سے ادائیگی کی بھی جائے تو اسے مرد سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق زرعی مزدوروں کا 60 فی صد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے لیکن انہیں کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ پدر سری معاشرے کے ثقافتی رواجوں کی بدولت زمین اور دیگر پیداواری وسائل مرد کی ملکیت اور کنٹرول میں رہتے ہیں۔ یوں عورت سماجی، سیاسی اور سماجی طور پر دبی رہتی ہے اور مرد کی محتاج رہتی ہے۔
پاکستان میں حکومت سندھ نے 2008 میں ہاری عورتوں میں سرکاری زمینیں بانٹنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے اور اس ضمن میں پیش آنے والی عملی رکاوٹوں کو دور کیا جائے
خواتین میں زرعی زمینوں کی منصفانہ تقسیم ایک ایسے معاشرے کے خواب کو پورا کر سکتی ہے جہاں مرد و خواتین سماجی اور اقتصادی حیثیت میں برابر قرار پائیں گے۔ اس سے جہاں ایک طرف خواتین کا سماجی اور اقتصادی استحصال ختم ہوگا، تو دوسری طرف مرد پر سے بھی اقتصادی بوجھ کم ہوگا جس سے یقینی طور پر معاشرے پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں