سندھ طاس معاہدہ : پاکستان نے معاملہ ورلڈ بینک میں اٹھادیا
واشنگٹن: پاکستان سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے اپنا مقدمہ عالمی بینک کے پاس لے گیا اور اس پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کو دریائے نیلم اور چناب پر غیر قانونی تعمیرات سے روکے۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’پاکستانی وفد نے عالمی بینک کے حکام سے ملاقات کی جس میں ورلڈ بینک نے یقین دہانی کرائی کے وہ اس سلسلے میں غیر جانب دار رہتے ہوئے بروقت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا‘۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے ورلڈ بینک کے واشنگٹن میں موجود ہیڈکوارٹرز میں اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کی اور حال ہی میں پاکستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت کی جانے والی ثالثی کی درخواست پر بات چیت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:'سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جنگ تصور کی جائے گی'
یاد رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں ستمبر 1960 میں ہوا تھا جس پر پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر ایوب خان جبکہ ہندوستان کی جانب سے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے تھے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر ہندوستان کو مکمل حق دیا گیا جبکہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔
معاہدے کے مطابق مغربی دریاؤں کے پانی سے ہندوستان کو محدود پیمانے پر بجلی بنانے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
آرٹیکل 9 سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد پر دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی طرح کے تنازع پر ثالثی کی وضاحت کرتا ہے جبکہ معاہدے میں یہ بات بھی درج ہے کہ اگر ہندوستان ہائیڈو پاور پلانٹس تعمیر کرے گا تو اس کا ڈیزائن کیا ہونا چاہیے۔
پاکستان نے یہ موقف اپنایا ہوا ہے کہ کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس سندھ طاس معاہدے میں ڈیزائن کے حوالے سے درج پیرامیٹرز کے خلاف ہیں۔
ان دو پاور پلانٹس کے ڈیزائن پر اختلافات کے حوالے سے مسقتل کمیشن برائے انڈس واٹرز کے 108 ویں سے لے کر 112 ہویں اجلاس میں کئی بار مذاکرات ہوئے تاہم کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
یہ کمیشن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور اس میں دونوں ملکوں سے انڈس واٹر کمشنر موجود ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’ہندوستان سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کرسکتا‘
بعد ازاں اس حوالے سے رواں برس پاکستان اور ہندوستان کی حکومت کے درمیان سیکریٹری سطح کے مذاکرات بھی ہوئے تھے۔
19 اگست کو سیکریٹری سطح کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پاکستان نے معاہدے کے تحت اس مسئلے کے حل کے لیے باضابطہ کارروائی شروع کی۔
19 اگست کو حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر حکومت ہند کو درخواست کی کہ وہ دریائے نیلم اور چناب پر کشن گنگا اور ریٹل ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس پر پاکستان کے خدشات کو دور کرے اور اس سلسلے میں معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت معاملے کو ثالثی عدالت میں لے گیا۔
پاکستان نے ورلڈ بینک کو یاددہانی کرائی کہ معاہدے کے تحت ثالثی عدالت کے قیام اور تین ججز کی تقرری میں معاونت کے حوالے سے عالمی بینک کا اہم کردار ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں نے دو دو ثالث مقرر کرچکے ہیں۔
ورلڈ بینک کے حکام سے ملاقات میں پاکستانی وفد نے اس بات پر زور دیا کہ جلد از جلد ثالثی عدالت کا قیام اور ججوں کی تقرری کو یقینی بنایا جائے۔
پاکستانی وفد میں اٹارنی جنرل کے علاوہ سیکریٹری پانی و بجلی محمد یونس، پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ اور جوانئنٹ سیکریٹری (واٹر) احمد عرفان اسلم بھی شامل تھے جبکہ امریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی اور ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائے پاکستان ناصر کھوسہ بھی اجلاس میں شریک تھے۔
مزید پڑھیں:ہندوستان کا انڈس واٹر کمیشن کے مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ
ورلڈ بینک کی جانب سے اجلاس میں سینیئر وائس پریزیڈنٹ اینے میری لیرائے ، وائس پریزیڈنٹ برائے جنوبی ایشیا انیتے ڈکسن، ڈپٹی قونصل جنرل برائے آپریشنز البرٹو نینو، چیف قونصل برائے جنوبی ایشیا میلنڈا گڈ اور سینیئر قونصل برائے انٹرنیشنل واٹر ویز وکٹر موسوتی شامل تھے۔
یاد رہے کہ ہندوستان نے یکم اپریل 1948 سے دریائے روای اور ستلج کا پانی روکنا شروع کردیا تھا جس کے بعد 1960 میں دونوں ملکوں کے درمیان سندھ طاس معاہدہ طے پایا۔
گزشتہ روز ایک ہندوستانی اخبار دی ہندو نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی معاونت بند ہونے تک ہندوستان نے انڈس واٹر کمیشن کو معطل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس بات کا فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کی گئی۔
اجلاس میں ہندوستان کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکیرٹری خارجہ ایس جے شنکر، سیکریٹری آبی ذخائر اور دیگر اہم عہدےد ار موجود تھے۔
تاہم سابق انڈس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ نے ڈان کو بتایا کہ ’اگر ہندوستان نے مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر پاک ہند واٹر کمشنرز کے درمیان ملاقات نہیں ہوسکے گی جبکہ معاہدے کے مطابق سال میں ایک بار دونوں ملکوں کے حکام کی ملاقات ضروری ہے‘۔
دی ہندو نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اجلاس میں سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی گئی بلکہ ہندوستان کے مغربی دریاؤں کو بہتر طریقے سے بروئے کار لانے پر غور کیا گیا۔
یہ خبر 28 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی