افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا
کابل: افغانستان میں صدر اشرف غنی کی انتظامیہ اور حزب اسلامی کے وفد نے امن معاہدے پر دستخط کردیے جس کے ساتھ ہی گلبدین حکمت یار کے ملک کی سیاست میں آنے کے امکانات ایک مرتبہ پھر روشن ہوگئے ہیں۔
یاد رہے کہ گلبدین حکمت یار کو افغان وار لاڈ کے طور پر جانا جاتا ہے، جو ملک کے ایک اہم عسکری گروپ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں۔
افغانستان کی دوسری بڑی عسکری جماعت کے ساتھ طے پانے والے مذکورہ معاہدے کو ملک میں امن عمل کیلئے کام کرنے والے صدر اشرف غنی کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔
حزب اسلامی کے وفد نے کابل میں اعلیٰ امن کونسل (ایچ پی سی)، عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی ذمہ دار کونسل، کے اراکین اور نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر سے ملاقات کے بعد معاہدے پر دستخط کیے۔
مزید پڑھیں: افغان حکومت، حزب اسلامی امن معاہدے کے قریب
ایچ پی سی کی ڈپٹی چیف حبیبیہ سوباری نے کابل میں معاہدے کیلئے منعقدہ تقریب میں کہا کہ 'اس معاہدے پر دو سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد افغان حکومت کی اعلیٰ امن کونسل اور حزب اسلامی نے دستخط کیے ہیں'۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'امن مذاکرات کامیابی سے مکمل ہوئے ہیں'۔
خیال رہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار کی جانب سے دستخط کے بعد شروع ہوگا تاہم اس کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ مذکورہ تقریب میں اشرف غنی اور گلبدین حکمت یار دونوں ہی موجود نہیں تھے۔
معاہدے کے ڈرافٹ کے مطابق افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کو 'تمام سابقہ سیاسی اور فوجی مقدمات' میں قانونی استثنیٰ اور ان کی تنظیم کے قید کارکنوں کو رہا کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت،حزب اسلامی میں معاہدےکامسودہ تیار
یہ بھی یاد رہے کہ گلبدین حکمت یار کو امریکا کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے انھیں بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔
ان مذکورہ پابندیوں کو اٹھانے کیلئے بھی افغان حکومت اقدامات اور کوششیں کرے گی تاکہ انھیں مقامی سیات میں لایا جاسکے۔
اس سے قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ واشنگٹن مذکورہ مذاکرات میں شریک نہیں تاہم گلبدین سے ہونے والا امن معاہدہ خوش آئیند ہے۔
گلبدین افغان خانہ جنگی کا اہم کردار
گلبدین حکمت یار کو کئی دہائیوں تک افغان جنگ کا تجربہ ہے، وہ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں جس کو دائیں بازو کا مسلح گروہ مانا جاتا ہے جس کو 90 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان میں خانہ جنگی کا ذمہ داروں میں سے ایک کردار بھی قرار دیا جاتا رہا ہے، گلبدین حکمت یار کچھ عرصے کے لیے افغانستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
افغانستان کے سابق وزیر اعظم انجینئر گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت تنظیم حزب اسلامی نے 1977 سے 1992 تک روس کے خلاف جنگ میں متحرک ترین کردار ادا کیا تھا جبکہ حزب اسلامی پر 1992 سے 1996 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین کو ہلاک کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے، 2001 میں افغانستان میں امریکا کی فوجی دخل اندازی کے بعد گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ مذکورہ معاہدے کا افغانستان کی موجودہ سیکیورٹی کی ابتر صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حزب اسلامی حالیہ چند سالوں سے غیر مؤثر ہے اور انھوں نے آخری بڑا حملہ 2013 میں کیا تھا جس میں 6 امریکیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسری جانب طالبان، جن سے 2011 میں حکومت چھین لی گئی تھی، نے مغربی ممالک کی مدد سے بننے والی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے اور ملک بھر میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔