• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کچھ سوال بنگلہ دیش، کچھ اپنوں سے

شائع September 21, 2016 اپ ڈیٹ September 22, 2016
جماعتِ اسلامی کے پھانسی پانے والے رہنما میر قاسم علی ڈھاکہ میں عدالت میں پیشی کے موقع پر ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی/فائل
جماعتِ اسلامی کے پھانسی پانے والے رہنما میر قاسم علی ڈھاکہ میں عدالت میں پیشی کے موقع پر ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی/فائل

حال ہی میں بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ تمام تر گذشتہ پھانسیوں کی طرح اس پھانسی کے ٹرائل کی شفافیت پر بھی اعتراضات کیے گئے تھے، مگر بنگلہ دیش نے کسی کی ایک نہ مانی۔

میرے ایک سینیر دوست تھے جو تقسیمِ پاکستان کے وقت بنگلہ دیش میں موجود تھے۔ سولہ سترہ سال کے نوجوان تھے اور اپنے علاقے کی جماعتِ اسلامی تنظیم کے رکن بھی۔

آخری لمحوں میں ایک بنگالی ٹیکسی والے کو اس زمانے کے دو ہزار روپے دے کر محمدی کالونی سے ایئرپورٹ تک پہنچے۔ ایئرپورٹ پر ایک پولیس والے نے ہاتھ پکڑ لیا تو پچاس روپے رشوت نے ان کے پورے خاندان کی جان بچا لی۔

یہ دو ہزار پچاس روپے اگر ان کی جیب میں نہ ہوتے تو شاید ان ہزاروں لوگوں کی طرح جنہوں نے تقسیم کے ہنگامے میں پاکستان کا ساتھ دیا، ان کی لاش بھی کسی سڑک پر پائی جاتی۔

کیا بنگلہ دیش کے قیام کے وقت قتل عام ہوا تھا؟ کیا کسی ایک فریق نے کیا تھا؟ کیا یہ بھی حق اور باطل کا ایک معرکہ تھا جس میں غلطی صرف ایک جانب کی تھی؟

تقسیمِ ہند کے المیے کی طرح یہ بھی ایک ایسا المیہ ہے جسے ہر فریق اپنی اپنی مرضی کے رنگ کے عدسے سے دیکھتا ہے۔ ہندوستان والے پاکستان سے آتے سکھوں اور ہندوؤں کے قتل کی بات کرتے ہیں تو پاکستان آنے والوں کی یادوں میں سکھوں کے بھالوں اور ہندوؤں کی تلواروں کے زخم ہرے ہیں۔

بنگلہ دیش والوں کو البدر اور الشمس بریگیڈ کا رونا یاد ہے تو پاکستان پہنچ جانے والوں کو مکتی باہنی کی درندیاں۔ کسی بھی فریق نے اپنے حصے کے گناہ نہیں قبولے اور اپنے دامن پر لگے خون کے دھبوں کا حساب نہیں دیا۔ فیض نے تو خون کے دھبے دھو دینے والی بارشوں کی دعا کی تھی، مگر جو زخم روح پر آئے ہیں ان کا حساب کون دے گا؟

یہاں کچھ سوال بنگلہ دیش والوں سے بنتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو جو پھانسی دی گئی ہے، کسی تاریخی جرم کی نہیں بلکہ سیاسی مخالفت کی تو نہیں ملی؟

کیا انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے گئے ہیں؟

کیا ملزم اور مجرم کی تفریق، شک اور یقین کا تعین، گواہ اور قیاس کا فرق، سچ اور جھوٹ کی جانچ کی گئی ہے؟

کیا ریاست سے وفاداری کی تعریف ریاست کے نام بدل دینے سے قابلِ تعزیر بن جاتی ہے؟

اتنے عرصے بعد گھڑے مردے اکھاڑنا کیا کسی سیاسی چال کا حصہ تو نہیں؟

اگر ان لوگوں کو سزا صحیح دی گئی ہے تو مکتی باہنی کے ان لوگوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جو ان جیسے ہی جرائم میں نامزد ہیں؟

اپنے ملک کے لوگوں سے بھی کچھ سوال پوچھ لیں؟ بنگالیوں سے نفرت اور ان کا نسلی استحصال تو خیر اب ہر مؤرخِ منصف مزاج کی کتاب میں شامل ہے، مگر کیا ہم اس صرف نسلی امتیاز سے بڑھ کر بھی کسی جرم میں ملوث تھے؟

مجھے اپنے بچپن کا وہ واقعہ بھی یاد ہے جس میں ایک معزز صاحب نے بڑھک ماری تھی کہ ڈھاکہ بہت اچھی جگہ تھا، جو لڑکی پسند آتی اٹھا لیتے۔ کیا وہ لوگ جو بنگالیوں کی جان و مال، عزت و آبرو کے محافظ تھے، اپنی امانت میں خیانت تو نہیں کر گئے؟

کیا البدر و الشمس بریگیڈ پر لگائے جانے والے الزامات درست بھی ہو سکتے ہیں؟ کیا ہم میں اتنا حوصلہ ہے کہ قوم پرستی اور وطنیت کے تعصب میں آے بغیر انصاف سے فیصلہ کر سکیں کہ ممکن ہے کہ ان پر لگنے والے الزامات درست ہوں؟ اور پھر اگر ہم جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دے سکتے ہیں تو بھٹو کے عدالتی قتل سے لے کر بلوچ گمشدگیوں تک ہونے والی اپنی کوتاہیوں پر کب بولیں گے؟

بنگلہ دیش نے پاکستان سے 1974 میں معاہدہ کیا تھا کہ وہ جنگی جرائم میں شامل کسی پاکستانی کے خلاف مقدمہ نہیں قائم کرے گا، مگر یہ حضرات پاکستانی نہیں بلکہ بنگالی شہری ہی رہے۔ کچھ تو اپنی مرضی سے اور کچھ اس وجہ سے کہ ہم نے ان کو اپنے ملک لانے سے انکار کر دیا۔

جب ہم میں اتنا حوصلہ نہیں کہ ان کو پاکستان بلا سکیں تو اب ان کے مرنے پر رونا کیس بات کا مچا رہے ہیں؟ کیا یہ بھی ہماری منافقتوں میں سے ایک منافقت نہیں ہے؟

حقیقت یہی ہے کہ انصاف ایک ایسا سانچہ ہے جس کی تعریف اکثر سرحدوں کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ تاریخ صرف طاقتور اور فاتح کو منصف مزاج سمجھتی ہے۔

بنگالیوں نے اپنا ملک لے لیا تو وہ اپنی مرضی کی عدالتیں بنا کر اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کو دبا دیتے تو ان کے قاتلوں کو عدالتوں سے پھانسیاں دلواتے۔

ترک ایئر فورس کے جنرل ہوں یا پرویز مشرف، بگٹی ہو یا مجیب الرحمٰن، افتخار چوہدری ہو یا مولوی مشتاق احمد۔ عدالت اس کی لگتی ہے جو فاتح ہوتا ہے۔ یہی سچائی ہے۔

اختر عباس

اختر عباس اس آخری نسل کے نمائندے ہیں جس نے لکھے ہوئے لفظوں سے دور افتادہ رشتوں کا لمس محسوس کیا۔ وہ اس پہلی نسل کا بھی حصہ ہیں جس نے الیکٹرانک میسیجنگ کی برق رفتاری سے دلوں کے رنگ بدلتے دیکھے۔ نابیناؤں کے شہر میں خواب تراشتے ہیں اور ٹویٹر پر Faded_Greens@ کے نام سے چہچہاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Ak Sep 21, 2016 08:35pm
Article appear emotional. Lacks several important and logical issues . . . Better to go thru relevant reliable references.
yusuf Sep 21, 2016 09:09pm
Yeh jo 'patriot' word hai, bada dilfareb hai lekin haqeeqat main sirf pani ka bulbula........Aaj ka patriot kal ka ghaddar! Sirf aik sarhad k badal jane se insaan ka kirdaar badal gaya?????
zafar khan Sep 21, 2016 11:19pm
my friend , those hanged men was enjoying ministries in government of Bangladesh

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024