• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

'میں اپنے گانے خود نہیں سنتا'

شائع September 18, 2016

فہد مصطفیٰ اور بولی وڈ سپر اسٹارز رنبیر کپور، اکشے کمار، شاہد کپور اور سیف علی خان کے درمیان کیا چیز مشترک ہے؟ ان سب نے سلور اسکرین پر عاطف اسلم کی خوبصورت آواز کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو ملایا ہے۔

عجب پریم کی غضب کہانی کا تیرا ہونے لگا ہوں، رستم کا تیرے سنگ یارا، قسمت کنکشن کا بخدا، ریس ٹو کا بے انتہا یا ان کا تازہ ترین ایکٹر ان لاءکا دل ڈانسر ہوگیا، کوئی بھی گانا ہو، عاطف اسلم نے ہمیشہ اچھا کام کیا ہے۔

اپنی مرضی سے کچھ عرصے کے لیے وقفہ لینے والے گلوکار اب ایک تبدیل شدہ شخص کی شکل میں واپس آئے ہیں، جو ان کے اپنے الفاظ میں ایک اچھی چیز ہے " باپ بننے کے عمل نے مجھے اور زندگی کے بارے میں میرے مقاصد کو بدل دیا، باپ بننے سے پہلے میں نمبرون بننا چاہتا تھا مگر اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسی کوئی چیز نہیں، میں بس اپنا کام کرنا چاہتا ہوں اور لوگوں کو تفریح فراہم کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ لوگوں کے دل جیتنے کا بہترین طریقہ ہے"۔

ایک ایسا شخص جو لاتعداد دلوں اور ذہنوں کو جیت چکا ہو، اس لحاظ سے عاطف اسلم اپنے ہم عصر گلوکاروں سے اس لیے منفرد ہیں کیونکہ وہ خود اپنے گانے نہیں سنتے۔

وہ تسلیم کرتے ہیں " یہ بالکل درست ہے، میں اپنے گانوں کو نہیں سنتا، صرف ایک بار ایسا اس وقت کیا جب کسی فرد نے گانے میں ایک غلطی کی نشاندہی کی"۔

وہ ایک دلچسپ حقیقت کی جانب سے بھی نشاندہی کرتے ہیں " لوگ میرے پاس آکر رشتہ ٹوٹنے یا جڑنے کے دوران حوصلہ افزائی کے لیے میرا شکریہ ادا کرتے ہیں، یہ کافی مضحکہ خیز لگتا ہے مگر مجھے خوشی ہے کہ میں نے ان کے اچھے یا برے مزاج میں معاونت کی (قہقہہ)"۔

عاطف اسلم پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر لے کر گئے، متعدد بولی وڈ فلموں اور پھر ہولی وڈ میں مین پش کارٹ اور The Reluctant Fundamentalist میں نام بنانے کے بعد پاپ اسٹار نے مقامی فلمی صنعت میں دوبارہ داخل ہونے کا فیصلہ کیا، جہاں پانچ سال پہل انہوں نے شعیب منصور کی فلم بول میں گلوکاری اور اداکاری کی تھی۔

انہوں نے بتایا " یہ وہ بہترین وقت ہے جب میں انڈسٹری کو بول کے بعد کچھ دے سکتا ہوں، یہاں میں نے گلوکاری میں تو کچھ زیادہ نہیں کیا تھا، مگر یہ دوبارہ واپسی کا بہترین راستہ نظر آتا ہے، ایکٹر ان لاءکا گانا دل ڈانسر ہوگیا، صرف ایک رومانوی گیت نہیں، اس میں ایک مختلف احساس اور منفرد شاعری ہے، جس کے لیے کچھ اضافی کی ضرورت تھی، اور یہی وہ چیز ہے جو میں ہمیشہ کرنا چاہتا تھا"۔

اپنی واپسی کے لیے عاطف اسلم نے ایکٹر ان لا کا انتخاب کیوں کیا، اس کے پیچھے بھی ایک کہانی موجود ہے " اوم پوری صاحب ممکنہ طور پر اس کی وجہ ہیں، جب میں فلم کے سیٹ پر ان سے ملنے گیا تو پروڈیوسر فضا (علی مرزا) نے مجھ سے شکایت کی کہ میں نے نامعلوم افراد پر ان سے رابطہ نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ مجھے کہاں تلاش کررہی تھیں، تو میں نے فلم کے لیے ایک گانا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح دل ڈانسر ہوگیا تیار ہوا"۔

عاطف اسلم انڈیا، پاکستان اور مغرب میں لوگوں کے دل جیت چکے ہیں، ان کے پرستاروں کی تعداد کا مقابلہ کسی سے نہیں کیا جاسکتا۔ جب ان سے کامیابی کا راز پوچھا گیا تو ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں تھا " میری کامیابی کا کوئی راز نہیں، یہ برسوں پہلے کی بات ہے جب میں نے گانا شروع کیا اور لوگوں نے میری گائیکی کے انداز کو پسند کیا، اس کے بعد میں دنیا بھر کا ٹور کرچکا ہوں اور ایک وقت آیا تھاجب میں اس معمول سے تھک گیا تھا اور اسی لیے مجھے وقفے کی ضرورت پڑی، مگر اب میں اس جگہ دوبارہ آچکا ہوں جس کے لیے مجھے جانا جاتا ہے"۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران عاطف اسلم نے ایک نہیں بلکہ چار گانے ریلیز کیے، دو ایکٹر ان لاءکے لیے ، ایک رستم اور ایک فلائنگ جٹ کے لیے، اور یہ سب ہٹ ثابت ہوئے " عدم تحفظ کے شکار افراد واپسی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ منظر سے ہٹتے ہی نہیں، میں نے گانوں کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ تیرے سنگ یارا (رستم) کو ریلیز کے اولین پانچ دن میں 10 ملین بار سنا گیا، میں اس کے لیے اللہ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے یہ عزت دی اور اپنے پرستاروں کا جو مجھ پر یقین رکھتے ہیں، ایک ایسا فرد جس سے تربیت نہیں لی بلکہ خود سے سیکھا ہے، یہ سفر بہت بڑا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا " دلچسپ امر یہ ہے کہ مجھے پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں چاہا جاتا ہے اور مجھ پر یقین کریں کہ صرف چند پریس کانفرنسز میں ہی مسئلے ہوئے، میں بس تحمل کے ساتھ ایسے افراد کو کامیابی سے ہینڈل کرلیتا ہوں جو توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں، انہیں نظرانداز کرنا ہی بہترین پالیسی ہے کیونکہ اس کے بعد پرستار ہی خودساختہ فنکاروں پر ان کے برے رویے کی وج ہسے تنقید کرتے ہیں، انڈیا میں اچھے لوگ اور ساتھی بھی ہیں جو مجھے سراہتے ہیں، میں نے تجربے سے سیکھا ہے کہ غیر محفوظ ہونے کا احساس مدد نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کی ٹانگ کھینچنا فائدہ مند ہے"۔

جادوئی آواز کے مالک گلوکار کا کہنا ہے کہ " اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر عروج کے ساتھ زوال بھی ہے" اور مزید کہتے ہیں کہ یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث وہ ٹاپ پوزیشن کی دور کا حصہ نہیں بننا چاہتے " مجھے نمبرون کی پروا نہیں، مجھے بس اپنے کام سے محبت ہے جو میں کررہا ہوں، جہاں بھی میں جاتا ہوں، مجھے لوگوں کی جانب سے چاہا جاتا ہے، نیروبی میں، ویسٹ انڈیز یا جنوبی افریقہ تک، میں ان کی محبت کو عزیز رکھتا ہوں"۔

عاطف اسلم جو اپنے گانے عادت کے بعد ابھر کر سامنے آئے تھے، نے سنگاپور میں حال ہی میں ہونے والے اپنے ایک کنسرٹ اور چھ سال پہلے ناروے کے ایک شو کو اسٹیج پر اپنے بہترین لمحات قرار دیا " ناروے میں ستر ہزار سے زائد افراد موجود تھے ، مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب میں نے سلیش کے ساتھ پرفارم کیا، عظیم پیٹر گبرئیل کے بھی جنھوں نے استاد نصرت فتح علی خان کے ساتھ کام کیا تھا اور حال ہی میں دبئی میں سونو نگم کے ساتھ بھی پرفارم کیا"۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کونسا گانا ہے جس کے بارے میں ان کی خواہش ہے کہ وہ ان کا ہوتا تو سرحد کے دونوں جانب کے عظیم گلوکاروں کا ذکر کیا " استاد نصرت فتح علی خان کے متعدد گانے ایسے ہیں جن کو گانا مجھے پسند آتا، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میری آواز میں محمد رفیع کا گلابی آنکھیں گانا اتنا مشہور ہوجائے گا کیونکہ یہ سب سے پہلے ایسے ہی ایک کیفے ٹیریا میں گایا تھا، اب میں جہاں بھی جاتا ہوں تو اس کی فرمائش سب سے زیادہ ہوتی ہے"۔

اگر گزرے دور میں واپس جانے کا موقع ملا تو گلوکار نوجوان عاطف اسلم کو کیا مشورہ دیں گے ؟ " میں اسے کہنا چاہوں گا کہ مشہور مت ہو، میں اپنی نوجوانی کو بہت زیادہ یاد کرتا ہوں، میں ناشکرا نہیں مگر پہلے کبھی ایسا عاطف ہوتا تھا جو گلیوں میں گھومتا تھا، جسے پروا نہیں ہوتی تھی کہ کہ اس کی تصویر لی جائے یا نہیں، باہر گھومتے ہوئے لوگ اسے گھورتے نہیں تھے، میں اس زندگی کو یاد کرتا ہوں اور اس کے لیے کچھ بھی دینے کے لیے تیار ہوں، چاہے وہ کچھ لمحوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو"۔

یہ انٹرویو 18 ستمبر کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024