'زندگی کتنی حسین ہے' متاثر کرنے میں ناکام
اگر نام سے اس کے بارے میں فیصلہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو لگے کہ 'زندگی کتنی حسین ہے' ایک رومانوی کہانی ہے، مگر یہ فلم درحقیقت ایک نوجوان جوڑے کی ہنسی خوشی کی زندگی کے پیچھے لے جاتی ہے، جو کہ بدقسمتی سے اس فلم میں دکھائی جانے والی واحد فرحت بخش عنصر ہے۔
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے " شادی کے سات سال بعد اور ایک بچے جسے ڈوڈو کا نک نیم دیا گیا، کے بعد ماہرہ (سجل علی) اور زین (فیروز خان) کا رشتہ ٹوٹنے لگتا ہے، ایک ابھرتا ہوا اسکرین رائٹر زین اپنے خوابوں کے تعاقب میں مصروف ہوتا ہے جبکہ ماہرہ اس کا انتظار کرکر کے تھک جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شوہر اس سے محبت نہیں کرتا، جس پر وہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہے، جہاں سے زندگی کتنی حسین ہے کا آغاز ہوتا ہے۔
یہاں پر کاغذی طور پر جدید دور کی ازدواجی زندگی کے چیلنجز کو سامنے لانا کا موقع موجود تھا مگر اسے ضائع کردیا گیا۔
اس کے برعکس فلم کو غیر متعلقہ موضوعات کی جانب لے جایا گیا جیسے مارننگ شوز اور ان کی ریٹنگ گیم، کمرشل انڈسٹری میں ایک رائٹر کی مشکلات، خواب بمقابلہ حقیقی زندگی، محبت کی طاقت وغیرہ۔
اس میں عدالتی کارروائی اور طب کے شعبے کا بھی مذاق اڑایا گیا، یہ سب کچھ ایک خاندان کی توڑ پھوڑ کے پس منظر میں ہوتا رہا۔
فلم میں آگے جاکر ماہرہ عدالتی جدوجہد کے بعد ڈوڈو کی تحویل کا مقدمہ جیت لیتی ہے، دل برداشتہ زین بے گھر ہونے کی کیفیت میں گھلنے لگتا ہے جبکہ ماہرہ مارننگ شو ہوسٹ کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کو دوبارہ شروع کرکے سپر اسٹار بن جاتی ہے۔
ڈائریکٹر انجم شہزاد نے دوسری فلم کی ہدایات دی ہیں اور اس میں مزید دکھایا گیا ہے کہ ماہرہ کمرشلائزم کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے اور ہٹ ہوجاتی ہے مگر آخر میںاسے اپنے کام کے کھوکھلے پن کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب زین کی جانب سے انڈسٹری کے معیار کو مالی دباﺅ کے باوجود واضح طور پر مسترد کرنا بتدریج ثمر آور ثابت ہونے لگتا ہے، اسے وہ فلم ڈیل مل جاتی ہے جس کی اسے خواہش ہوتی ہے۔
یہ پیغام فنکارانہ انداز کی ماہ میر میں تو اچھا لگتا تھا مگر یہ امر حیران کرسکتا ہے کہ وہ زندگی کتنی حسین ہے، جیسی فلم میں کیا کررہا ہے۔
اس فلم کا بنیادی خیال یہی ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود زندگی بہت خوبصورت ہے۔ اس فلم میں کسی شخص کے ساتھ پیش آنے والے برے حالات کو پیش کرتی ہے، یعنی رشتہ ٹوٹنا، دیوالیہ ہونا، ٹوٹے ہوئے خواب وغیرہ۔
پوری فلم میں ڈوڈو اپنے والدین کے درمیان مصالحت کی کوشش کرتا ہے، جب وہ اپنے خاندان کو دنیا اپنی نظروں سے دیکھنے پر مجبور کردیتا ہے تو اس کا خاندان اچھا اختتام دریافت کرلیتا ہے۔
یہ ایک فلم کے لیے غیرمعمولی ہے کہ ایک چائلڈ اسٹار کو اسپاٹ لائٹ کیا جائے، اس بچے کے ڈائیلاگز فلسفیانہ ہیں جس میںفلم کے فلسفے کو بیان کیا گیا مگر جبرئیل راجپوت کسی دباﺅ میں نظر نہیں آئے۔ ان کا اعتماد اور اداکاری کی صلاحیت واضح ہے مگر باقی کاسٹ کی طرح بھاری ڈائیلاگ نے جبرئیل کی کردار نگاری کو بھی متاثر کیا۔
سجل علی اور فیروز خان اسکرین میں توجہ کا مرکز رہے جو ہمیں ان کی مزید فلموں کو دیکھنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے کافی ہے، توقع ہے کہ آگے وہ زیادہ بہتر اسکرپٹس پر کام کریں گے۔
زندگی کتنی حسین ہے، موسیقی کے معاملے میں بھی کوئی خاص کمال نہیںدکھا سکی، اس کے بیشتر گانے بھول جانے والے ہیں، مگر اوپننگ نمبر اس لیے یاد رہ جانے والا ہے کیونکہ وہ بدمزہ اور لو بجٹ ہے، جو کہ اس طرح کی فلم کے لیے مس فٹ ہے۔
مجموعی طور پر زندگی کتنی حسین ہے، بے مقصد وقت گزارنے کے لیے اچھی فلم ہے، مگر اس میں اضافی پیغامات کا بوجھ نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ ایسی فلم دیکھنا خوشگوار تجربہ ہوتا جس میں شادی کے رشتے کی گہرائی کو دکھایا جاتا۔ دیکھنے والے اچھے اسکرپٹ اور بہتر موسیقی کے حقدار ہیں، اس کے بعد ہی یہ پیسہ وصول فلم قرار دی جاسکتی ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں