ایمرجنسی کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
یہ بات بھلے ہی حیران کن ہو، مگر سچ ہے کہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں چند اقسام کی میڈیکل ایمرجنسیز میں ایک مریض کا صرف میڈیکو لیگل افسر (ایم ایل او) کی موجودگی میں ہی علاج کیا جاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سرکاری طبی ادارے ہوتے ہیں یا پھر وہ جہاں سرکار کی زیرِ سرپرستی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
کراچی میں چند برس پہلے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر اس قانون میں عدالتی احکامات کے تحت تبدیلی لائی گئی۔ چنانچہ اب تمام ہسپتالوں، خواہ وہ نجی ہوں یا سرکاری ہوں، کو ایم ایل او رپورٹ تیار کرنے سے پہلے گولی سے زخمی ہونے والے مریضوں کا علاج کرنے کی اجازت ہے۔
ہسپتالوں کو پھر بھی ایم ایل او رپورٹ تیار کرنی ہوتی ہے لیکن ایک نیا طریقہء کار اختیار کیا گیا ہے کہ ایم ایل او کی غیر موجودگی میں بھی علاج ہو سکے۔ قانون میں اس تبدیلی کے باوجود نجی ہسپتالوں کی جانب سے ایسے مریضوں کو داخل کرنے سے انکار عام بات ہے۔
کون سے کیسز میں ایم ایل او رپورٹ مطلوب ہوتی ہے؟
ایسے کئی کیسز ہیں جن میں ایم ایل او رپورٹ مطلوب ہوتی ہے اور ان میں سب سے عام واقعات نیچے درج ہیں:
روڈ حادثات
دہشتگردی کے واقعات (بم دھماکہ، فائرنگ وغیرہ)
فائرنگ سے زخمی ہونے (ٹارگٹ کر کے فائر کیا گیا ہو یا غیر ارادی/حادثاتی طور پر فائرنگ جیسے کیسز شامل ہیں۔)
جسمانی تشدد
قتل
زیادتی/جنسی تشدد (ایسے واقعات کی رپورٹ لازمی طور پر 24 گھنٹوں کے اندر درج کروائی جائے۔)
خودکشی یا اقدامِ خودکشی
زہر کا استعمال
اگر آپ کسی دوسری صورتحال کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار ہیں تو سب سے پہلے قریب ترین سرکاری ایمرجنسی مرکز پہنچیں۔ وہ مریض کو ابتدائی طبی امداد دیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو ایم ایل او رپورٹ اور ہسپتال میں داخل کروانے کے حوالے سے ہدایات فراہم کریں گے۔ اس کے بعد آپ حادثے کا شکار ہوئے مریض کو نجی ہسپتال میں منتقل کر سکتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ قریب ترین سرکاری طبی ادارہ کہاں واقع ہے، تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ ملک میں کہاں رہتے ہیں۔ سرکاری ایمرجنسی مراکز عام طور پر بہت تھوڑے اور ایک دوسرے سے کافی دور واقع ہوتے ہیں بھلے ہی وہ بڑے شہروں میں کیوں نہ ہوں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں تو حالت اور بھی بری ہے۔
آئیے ہم آپ کو بتائیں کہ ایسی کسی صورتحال میں آپ کیا کر سکتے ہیں۔
حادثے سے قبل
معلوم کریں کہ آپ کے گھر، اسکول، کام کی جگہ، ایسی جگہیں جہاں آپ کثرت سے آتے جاتے ہوں جیسے مالز، پارک، ساحلِ سمندر، جھیل وغیرہ سے ایم ایل او سہولت کے ساتھ قریب ترین کون سا ہسپتال واقع ہے۔ اس بات کو یقینی بنا لیں کہ ہر وہ فرد اس سے آگاہ ہو جسے ان چیزوں کو جاننے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
گھر: یہ معلومات اپنے گھر میں ایمرجنسی فہرست میں درج کر دیں۔
کام کی جگہ: اس بات کی تسلی کر لیں کہ انتظامیہ نے یہ معلومات نمایاں طور پر دفتر میں رکھی ہوں، یا ایمرجنسی ٹیم کو آسانی سے دستیاب ہوں۔
اسکول: یہ معلوم کر لیں کہ آیا اسکول ایسے نزدیکی ہسپتال یا طبی مرکز سے آگاہ ہے یا نہیں، اور اگر نہیں ہیں تو ان کی مدد اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی بھی کریں۔
عوامی جگہیں:اس بارے میں آپ کے لیے اور آپ کے گھر کے کسی بھی فرد کے لیے بھی جاننا ضروری ہے جو اکثر ایسی جگہوں پر جاتے ہیں۔
حادثے کے دوران
ریسکیو/ایمرجنسی سروسز کو فون کریں۔
ایمبولینس پہنچ جائے تو ڈرائیور کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے مریض کو کہاں لے جانا ہوگا۔
اگر آپ خود حادثے کا شکار ہوئے شخص کو لے جا رہے ہیں تو پھر ہیلپ لائن آپ کی رہنمائی کرے گی۔
ڈاکٹر کو فون کریں۔ انہیں عام طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زخمی شخص کو کہاں لے جانا چاہیے اور کہاں مناسب طبی امداد حاصل کی جاسکتی ہے۔ وہ آپ کو مریض کو ہسپتال لانے کے دوران راستے میں مریض کے متعلق ضروری ہدایات بھی دے سکتے ہیں (ایسی معلومات آپ مختلف ایمرجنسی ہیلپ لائنز کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں)۔
اپنے موبائل میں موجود نمبرز پر واٹس ایپ مسج بھیج دیں یا سوشل میڈیا پر معلومات کے حصول کے لیے جلد از جلد پوسٹ ڈال دیں۔
پورے ملک میں مندرجہ ذیل ہیلپ لائنز آزمودہ اور تسلی بخش ہیں:
ریسکیو 1122 (پنجاب اور خیبر پختونخوا)
ایدھی 115
چھیپا 1020
امن فاؤنڈیشن (سندھ) 1021
نوٹ: ہمیشہ مقامی سروسز کی تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کریں جو ایمرجنسی میں اتنی ہی مؤثر ثابت ہوتی ہیں، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ دیگر مشہور ایمرجنسی سروسز پہلے سے مصروف ہوں اور آپ کو جواب نہ دے پا رہے ہوں۔ یہ صورتحال بالخصوص کسی بڑے حادثے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے۔
حادثے کے بعد:
آپ نے جو کچھ بھی دریافت کیا اور جو کچھ کیا ان تمام باتوں کا جائزہ لیں۔
آیا معلومات مددگار ثابت ہوئیں یا نہیں، اس بارے میں متعلقہ افراد کو آگاہ کریں (جن کا ذکر اوپر ہے)؛ کیونکہ آپ کی فراہم کردہ معلومات مستقبل میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوں گی۔
اگر آپ کا کوئی فیملی ڈاکٹر نہیں ہے تو ابھی کسی ڈاکٹر کو منتخب کر لیں۔
انسان دوست قوانین کی عدم موجودگی
کئی ملکوں کے برعکس پاکستان انسان دوست قوانین نہیں رکھتا۔ ایم ایل او رپورٹ کا یہ قانون اس لیے بنایا گیا تھا کہ ایمرجنسی میں اگر کوئی آپ کی مدد کرے تو آپ کی مدد کرنے کی کوشش کرنے کے دوران کسی قسم کی غفلت کی وجہ سے مستقبل میں اس شخص کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔
اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ کو مشکل میں دوسروں کی مدد نہیں کرنی چاہیے مگر اس کے لیے آپ کو درست انداز سے ابتدائی طبی امداد فراہم کرنی آنی چاہیے۔
ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت تمام افراد بشمول چھوٹے بچوں کو بھی دی جانی چاہیے۔
ذیل میں کچھ اہم نکات درج ہیں:
ہائیملک مینیؤر (سانس یا غذا کی نالی میں پھنسی کوئی چیز نکالنے کا طریقہ)
رکنا، لیٹنا اور لوٹ پوٹ ہونا (کسی شخص کے کپڑوں کو آگ لگ جانے کی صورت میں یہ عمل کیا جائے)
سی پی آر (جب کوئی شخص سانس لینا بند کر دے)
جلنے کا علاج (خاص توجہ ان ٹوٹکوں کو دیں جنہیں کبھی بھی نہیں آزمانا چاہیے)
خون بہنے کا علاج (چاہے معمولی ہو یا سنگین)
بے ہوشی (کس طرح ایک شخص کو دوبارہ ہوش میں لایا جائے اور اس کے بعد کون سی تدابیر ضروری ہیں)
ہاتھ پیر کا ٹوٹ جانا یا مُڑ جانا (حادثے کا شکار بننے والے شخص کو کس طرح جلد از جلد مستحکم کیا جائے تاکہ مزید پیچیدگیوں سے بچا جاسکے۔)
موبائل ایپ
ایسی کئی موبائیل ایپلیکیشنز دستیاب ہیں جو ایمرجنسی میں آپ کی جلد سے جلد رہنمائی کر سکتی ہیں۔ ان میں تصویری اور آڈیو رہنمائی شامل ہوتی ہیں۔
سینٹ جان ایمبولینس فرسٹ ایڈ ایپ ایپل اور اینڈرائڈ دونوں کے لیے بہتر ہے۔
یاد رکھیں: ہمیشہ اپنے تفصیلی میڈیکل ریکارڈز تک اپنے تمام گھر والوں کی آسان رسائی یقینی بنائیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 ستمبر 2016 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں