خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کے بعد رہائی
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے کے چند گھنٹے بعد رہا کردیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے حکم کے بعد خواجہ اظہار کو ڈی آئی جی ساؤتھ آزاد خان گڈاپ میں راؤ انوار کی تحویل سے اپنے ساتھ کراچی پولیس چیف کے آفس لائے، جہاں قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد خواجہ اظہارالحسن کو رہا کر دیا گیا۔
قبل ازیں خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر پولیس کے چھاپے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں، ابھی یہ معمہ ہی حل نہیں ہوا تھا کہ سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار ایم کیو ایم رہنما کے گھر پہنچ کر انھیں گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
خواجہ اظہار الحسن کو ہتھکڑی لگا کر بکتر بند گاڑی میں لے جایا گیا، اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بھی موجود تھے، جو پولیس اہلکاروں سے خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کی وجہ پوچھتے رہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا نوٹس، راؤ انوار معطل
بعد ازاں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کرنے پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو معطل کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔
اس حوالے سے مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ راؤ انوار نے غلط اقدام اٹھایا، اسی لیے انھیں معطل کیا گیا۔
واضح رہے کہ کسی بھی رکن سندھ اسمبلی کی گرفتاری سے قبل وارنٹ گرفتاری دکھانا ضروری ہوتا ہے، جبکہ اس سلسلے میں اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی یا اسمبلی سیکریٹریٹ کو بھی آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے، تاہم ایسا نہیں کیا گیا، لہٰذا خلاف ورزی پر وزیراعلیٰ سندھ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی معطلی کے احکامات جاری کیے۔
راؤ انوار نے مئی 2015 میں 2 ملزمان گرفتار کیے تھے، طاہر لمبا اور جنید کے حوالے سے راؤ انوار نے کہا تھا کہ ہندوستان جا کر تربیت حاصل کی، ساتھ ہی انہوں نے ایم کیو ایم کو 'دہشت گرد' جماعت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر پابندی لگنی چاہیے۔
’ بڑے آدمی کی گرفتاری کیلئے اجازت، چھوٹے کیلئے کوئی اجازت نہیں‘
معطلی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایس ایس ملیر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کو ٹارگٹ کلرز کا چیف کہا جاتا ہے جنہیں قانونی طریقے سے گرفتار کیا، جبکہ کوئی پولیس افسر کسی گرفتار شخص کو نہیں چھوڑ سکتا، بلکہ صرف عدالت چھوڑ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو کسی کی ہدایت پر گرفتار نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کے لیے اسپیکر کی اجازت کی ضرور ہوتی ہے بلکہ اسپیکر کو صرف گرفتاری کی اطلاع دی جاتی ہے، جبکہ بڑے آدمی کی گرفتاری کے لیے اجازت اور چھوٹے کے لیے کوئی اجازت نہیں، اس سے شہر کا امن خراب ہوگا اور اگر اجازت لینے کی بات ہوتی رہی تو شہر میں حالات خراب ہی رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک سب انسپیکٹر لیول کا افسر ایف آئی آر میں نامزد کسی بھی شخص کو گرفتار کرسکتا ہے، جبکہ خواجہ اظہار کے خلاف بھی پہلے سے مقدمات درج ہیں اس لیے انہیں گرفتار کیا گیا۔
راؤ انوار کا کہنا تھا کہ مجھے معطل کرنے میں جلد بازی کی گئی اور مجھے غلط معطل کیا گیا، رینجرز نے گرفتاریاں کیں تو کوئی نہیں بولا لیکن پولیس کی کارروائی پر شور مچ گیا، جبکہ کسی نے کوئی انکوائری نہیں کی، مجھ سے معاملے سے متعلق پوچھا بھی نہیں اور معطل کردیا۔
انہوں نے کہا کہ میری معطلی کے بعد تفتیش رکنے سے یہ کیس کافی متاثر ہوگا، تفتیش رکنے کے بعد یہ لوگ اب مزید کارروائیاں کریں گے، جس کے لیے انہوں نے جنوبی افریقہ سے ٹیم بھی منگوالی ہے۔
ایس ایس پی ملیر نے کہا کہ ’کسی ایجنسی کے کہنے پر کچھ نہیں کرتا، خواجہ اظہار کی گرفتاری سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، پولیس کے اندر بھی گروہ بندیاں ہیں، انہوں نے ہی وزیر اعلیٰ کو گمراہ کیا اور میری معطلی کا حکم نامہ جاری کرایا، لیکن حکومت کے ناراض ہونے کی مجھے کوئی پرواہ نہیں جبکہ میری معطلی کے سائیڈ افیکٹ سامنے آئیں گے اور ایسے اقدامات سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح کام کرنے سے روکا جارہا ہے ہوسکتا ہے میں احتجاجاً پولیس ڈیپارٹمنٹ سے استعفیٰ دے دوں۔‘
میں راؤ انوار سے وارنٹ گرفتاری مانگتا رہا، فاروق ستار
خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم رہنما کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا، 'میں راؤ انوار سے وارنٹ گرفتاری مانگتا رہا، لیکن نہ تو کوئی الزام بتایا گیا اور ہی ان کی گرفتاری کے ورانٹ دکھائے گئے اور دن دیہاڑے ہم سب کی موجودگی میں جس طرح انھیں لے جایا گیا، اس سے زیادہ پاکستان کے سیاسی اور جمہوری نظام کی بے توقیری نہیں ہوسکتی، اس سے زیادہ ذلت و رسوائی نہی ہوسکتی'۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی اس کارروائی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ معاملہ لندن سے پارٹی چلانے کا نہیں، نہ ہی معاملہ وہاں سے پاکستان مخالف نعرے لگانے کا ہے، بلکہ یہ معاملہ ایم کیو ایم دشمنی کا ہے، یہ مہاجر دشمنی کا معاملہ ہے اور اس کا مقصد ایم کیو ایم کو دیوار سے لگا کر ختم کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری سے 2، 3 گھنٹے پہلے خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر جس طرح سے چھاپہ مارا گیا اور میڈیا پر راؤ انوار کی جانب سے تاویل دی گئی کہ ان کے گھر پر 12 مئی کے ملزمان چھپے ہوئے ہیں، جبکہ خواجہ اظہار الحسن پر اس وقت تک بھی کوئی الزام نہیں تھا، نہ ہی ان کے گھر سے کوئی لوگ برآمد ہوئے اور نہ کوئی اور چیز وہاں سے برآمد ہوئی، لیکن پھر بھی انھیں گرفتار کرلیا گیا۔
فاروق ستار نے سوال کیا کہ میں سب سے پوچھتا ہوں کہ یہ کون سے ایجنڈے پر عمل ہو رہا ہے۔ خواجہ اظہار الحسن کل تک مطلوب نہیں تھے، آج مطلوب ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ذلت اور رسوائی سے بہتر ہے کہ ہم سب لوگ اجتماعی گرفتاریاں دے دیں۔
ساتھ ہی انھوں نے الزام عائد کیا کہ راؤ انوار پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خاص بندے ہیں، تو کیا ایک حکومت دبئی سے چل رہی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صرف ایک چہرہ ہیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ زرداری صاحب اس بات کو واضح کریں کہ خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کس کی ایماء پر ہوئی۔
وزیراعظم کا خواجہ اظہار کی گرفتاری پر اظہار برہمی
وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ٹیلی فون کیا اور خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری سے متعلق معلومات حاصل کیں۔
وزیر اعظم نے خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر کسی رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔
انہوں نے مراد علی شاہ کو قانون کی حکمرانی ہر قیمت پر یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی پولیس افسر قصوروار ہو تو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے نواز شریف کو معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔
خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر چھاپہ
حراست میں لیے جانے سے قبل خواجہ اظہار الحسن نے اپنے گھر پر چھاپے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جس وقت چھاپا مارا گیا وہ گھر پر موجود نہیں تھے اور والد کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے ہوئے تھے۔
ایم کیو ایم رہنما کے مطابق انھیں فون پر بتایا گیا کہ پولیس موبائلوں میں سادہ لباس اہلکاروں نے ان کے گھر پر چھاپا مارا، گھر میں صرف خواتین تھیں، جنھیں ہراساں کیا گیا اور اہلکار گھر کی تلاشی لے کر واپس چلے گئے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر چھاپے کا نوٹس لے کر سہراب گوٹھ تھانے کے ایس ایچ او فوری طور پر معطل کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔
ترجمان وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق مراد علی شاہ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کی، جبکہ جس وقت چھاپے کی اطلاع ملی، وہ وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ ملاقات کے لیے موجود تھے۔
اس طرح ترجمان وزیراعلیٰ ہاؤس کے اس بیان سے خواجہ اظہار الحسن کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ چھاپے کے وقت وہ قبرستان میں موجود تھے۔
ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سینٹرل فرید الدین نے واقعے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں وزیراعلیٰ سندھ نے کال کرکے فوری طور پر پہنچنے کا کہا، تاہم جب وہ وہاں پہنچے تو چھاپہ مار ٹیم جاچکی تھی۔
واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈی سی نے کہا کہ چھاپہ مار ٹیم میں ایک سرف گاڑی اور 2 پولیس موبائلز تھیں، جن میں سوار 6 سے 8 اہلکاروں نے خواجہ اظہار الحسن اور علاقے کے 2 مزید گھروں کی بھی تلاشی لی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر یہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) یا مقامی پولیس کا کام نہیں لگتا اور ہم دیکھ رہے کہ چھاپہ کس نے اور کیوں مارا۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ چھاپے کے وقت لیڈیز پولیس اہلکار ساتھ موجود نہیں تھیں جو کہ ایک غلط روایت ہے اور اس کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے حوالے سے میڈیا پر یہ بیانات گردش کر رہے تھے کہ ملیر انویسٹی گیشن اور آپریشن پولیس نے سانحہ 12 مئی کے ملزمان اور بدنام زمانہ ٹارگٹ کلرز کی موجودگی کی اطلاع پر خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر چھاپا مارا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے چھاپے بغیر کسی اطلاع کے مارے جاتے ہیں، تاہم انھوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا کہ خواجہ اظہار الحسن کے گھر سے کسی کو حراست میں لیا گیا یا نہیں۔
خواجہ اظہار الحسن کے گھر پر چھاپہ ایک ایسے وقت میں مارا گیا جب گذشتہ ماہ 22 اگست کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین نے کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے خطاب میں پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس پر کارکنوں نے مشتعل ہوکر نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اورآنسو گیس کا استعمال کیا، اس موقع پر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔
اسی روز الطاف حسین نے امریکا میں بھی کارکنان سے خطاب کیا تھا، جس کی آڈیو کلپ انٹرنیٹ پر سامنے آئی جس میں الطاف حسین نے کہا کہ 'امریکا، اسرائیل ساتھ دے تو داعش، القاعدہ اور طالبان پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے خود لڑنے کے لیے جاؤں گا'۔
اسی دن پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم رہنماوں ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا،ان رہنماؤں کو اگلے دن رہا کیا گیا۔
دوسری جانب ان واقعات کے بعد رینجرز اور پولیس نے شہر بھر میں کارروائیاں کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سمیت متعدد سیکٹرز اور یونٹس بند کرنے کے ساتھ پارٹی ویب سائٹ کو بھی بند کردیا تھا۔
بعدازاں 23 اگست کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا اعلان کیا، بعدازاں پارٹی کی جانب سے اپنے بانی اور قائد سے قطع تعلقی کا بھی اعلان کردیا گیا اور ترمیم کرکے تحریک کے بانی الطاف حسین کا نام پارٹی کے آئین اور جھنڈے سے بھی نکال دیا گیا، اسی روز سے ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی سنبھال لی تھی۔
تبصرے (4) بند ہیں