'ویزا چاہیے تو جو میں کہوں وہ کرو ورنہ نکل جاؤ'
مجھے حال ہی میں یورپین ریسرچ کنسورشیم فار انفارمیٹکس اینڈ میتھمیٹکس (ای آر سی آئی ایم) کی جانب سے جرمنی میں فیلوشپ پیش کی گئی ہے۔
اپنے میزبان ادارے فرانہوفر انسٹی ٹیوٹ فار انٹیگریٹڈ سرکٹس (آئی آئی ایس) سے تمام ضروری کاغذات حاصل کرنے کے بعد میں نے 26 اگست کو جرمن ویزا کے لیے درخواست دینے کا عمل شروع کردیا۔
مجھے جرمن قونصل خانے کی ویب سائیٹ سے پتہ چلا کہ وہاں پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر ویزا درخواستیں لی جاتی ہیں۔ اس کا مطلب تھا کہ مجھے کراچی میں موجود قونصل خانے کے کھلنے کے اوقات سے کافی پہلے وہاں پہنچنا تھا اور ان محدود ٹوکنز میں سے ایک حاصل کرنا تھا جو وہ ہر صبح جاری کرتے ہیں۔
پہلے آئے مگر پہلے پا نہ سکے
میں ایک دن پہلے اپنی اہلیہ اور اپنے دو بچوں سمیت نوابشاہ سے کراچی کی طرف نکل پڑا۔ اگلے دن میں قونصل خانے صبح کے پانچ بجے (قونصل خانے کے کھلنے سے 3 گھنٹے پہلے) پہنچا۔ میں پراعتماد تھا کہ سب سے پہلا ٹوکن میں ہی حاصل کروں گا۔
میری توقعات کے برعکس وہاں مجھ سے بھی پہلے کافی سارے لوگ موجود تھے۔ بہرحال میں اپنے لیے ٹوکن حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
پاکستان میں موجود زیادہ تر قونصل خانوں اور سفارت خانوں میں ویزا درخواست گزاروں کے لیے انتظار گاہیں یا بیٹھنے کے انتظامات موجود نہیں ہیں۔ آپ کو محض چند مربع میٹرز پر محیط جگہ کے درمیان رش میں کھڑا رہنا پڑتا ہے اس دوران آپ کے ساتھ ناگوار رویہ بھی برتا جا رہا ہوتا ہے۔
طویل انتظار
ڈھائی گھنٹوں کے انتظار کے دوران درجن بھر سکیورٹی گارڈز میں سے دو آپ کی طرف اپنی بندوقیں تانے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھے ورلڈ وار زی فلم یاد آ گئی، جس میں زومبیز کو انسانوں سے علیحدہ کردیا جاتا ہے اور انہیں زومبی لینڈ تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
اس طویل انتظار کے دوران میرے بچے کھیلنے میں مصروف تھے۔ جب بھی وہ سکیورٹی پھاٹک کے قریب آتے تو گارڈز مجھے گھورنا شروع کردیتے کہ میں بچوں کو اندر آنے سے باز رکھوں۔
پڑھیں:'آپ کو یورپ کا ویزا نہیں مل سکتا'
اس دوران دو آوارہ کتوں نے باآسانی سکیورٹی حصار کو پار کر دیا اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ان میں سے ایک گارڈ نے کتوں کو کھانا دیا اور پھر انہیں سکیورٹی پکٹ کے قریب آرام کرنے بھی دیا۔ یہ طے ہے کہ کتوں کے ساتھ ہم سے بہتر سلوک برتا جا رہا تھا۔
قونصل خانے کے کھلنے سے پانچ منٹ قبل بڑی گاڑیوں میں قونصل خانے کا اسٹاف نمودار ہونا شروع ہوا۔ گارڈز ہم پر چلائے کہ ہم راستے سے ہٹ جائیں تاکہ اسٹاف ممبران کے لیے راستہ بنایا جا سکے۔ سکیورٹی ہائی الرٹ ہوئی اور بندوقیں باہر نکال لی گئیں۔
اس تمام صورتحال سے بے خبر میرے بچے کھیلنے میں ہی مصروف تھے۔ ایک گارڈ مجھ پر چلایا کہ میں انہیں پکڑ کر رکھوں تاکہ اسٹاف ممبران کی نقل و حرکت میں کوئی خلل نہ پڑے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اور میرے گھر والے بغداد میں کسی سفارت خانے کے باہر کھڑے ہیں جس پر حملہ ہوا ہی چاہتا ہے۔
اسٹاف ممبران اپنی گاڑیوں میں ہمیں حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے گزرے۔ مجھے وہ ان خوش مزاج اور حساس جرمنوں سے بالکل الگ لگے جن کے ساتھ یورپ میں پانچ سالہ قیام کے دوران میں رہا تھا۔ ان کی نظریں ہمیں احساس دلا رہی تھیں کہ جیسے ہم کمتر لوگوں کی ایک بھیڑ ہوں مگر ہاں کتوں کی جانب بڑی ہی مروت سے دیکھ کر مسکراہٹ کا تحفہ دے ڈالا۔
اسٹاف جیسے ہی قونصل خانے میں داخل ہوا تو ہمیں سکیورٹی پھاٹک کی جانب قطار بنانے کو کہا گیا۔ ایک قدآور اور مسٹنڈا جرمن سکیورٹی گارڈ، جو اپنے رکھ رکھاؤ سے دیگر کے مقابلے اعلیٰ عہدے کا حامل لگ رہا تھا، نہ جانے کہاں سے نمودار ہوا اور ہدایات دینے لگا۔
جرمن سکیورٹی گارڈ کی نگرانی میں ہمیں ایک ایک کر کے سکیورٹی پھاٹک پار کرنے دیا گیا۔ تلاشی کے دوران مجھے اپنی ٹانگیں کھول کر بڑے ہی ناگوار انداز میں کھڑا ہونے کو کہا گیا۔
پڑھیے: پاکستانی ویزا کا حصول کتنا آسان؟
جلد ہی مجھے کلیئر کر دیا گیا اور ویزا دفتر کھلنے تک مزید ایک گھنٹہ اور انتظار کرنے کو کہا گیا۔
اسٹاف کا تلخ رویہ
بالآخر ہماری باری آئی لیکن اس سے بھی پہلے ایک اور سکیورٹی چیک موجود تھا جہاں ہم سے درخواست کے دستاویزات کے علاوہ ہمارا سارا سامان لے لیا گیا۔ سکیورٹی چیک پر میں نے دیوار پر لگی داڑھی والے ایک شخص کی تصویر دیکھی جس پر بڑے الفاظ کے ساتھ ’’دہشتگرد‘‘ لکھا ہوا تھا اور ایک واررنگ بھی درج تھی جسے میں سمجھ نہیں پایا۔
ویزا کاؤنٹر پر پہنچنے کے بعد میں نے شیشے کے پیچھے بیٹھی ایک خاتون کو درخواست دی۔ وہ خاتون مائیکرو فون کے ذریعے بول رہی تھیں۔
دستاویزات لینے سے پہلے انہوں نے انتہائی تلخ انداز میں مجھ سے کہا کہ اگر میرے بچوں نے کسی قسم کا شور مچایا تو انہیں میری بیوی سمیت باہر بھیج دیا جائے گا۔ ان کی تلخی سن کر مجھ پر بھی غصے کی لہر دوڑ گئی۔ میں بھی انہیں سنانا چاہتا تھا کہ ڈیڑھ سال کے بچے کو سنبھالنا میرے بس کی بات نہیں، مگر میں غصہ پی گیا۔
چند منٹوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میرے گھر والوں کی درخواست میری ویزا درخواست کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی اور میرے جرمنی پہنچنے کے بعد ہی وہ درخواست دے پائیں گے۔
میں کافی پریشان ہوا، تاہم میں نے سینئر ویزا افسر سے ملنے کی درخواست کی۔ میرے پاس یورپ کے مقبول تحقیقی ادارے کی جانب سے لیٹر موجود تھے اور میں صرف تحقیق کے مقصد سے ویزا کی درخواست دے رہا تھا، مگر ان کا رویہ بھی اتنا ہی شدید ناگوار تھا جیسا وہاں موجود باقی اسٹاف کا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ میں کئی ایسے پاکستانیوں کو جانتا ہوں جنہیں جرمنی کے فیملی ویزا جاری کیے جا چکے ہیں، تو میرے کیس میں امتیازی برتاؤ کیوں کیا جا رہا ہے؟
انہوں نے ماتھے پر شکنیں لاتے ہوئے جواب دیا:
’’مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر کسی کو فیملی ویزا جاری کیا گیا ہے اور میں اس بات کی تصدیق بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ اگر ویزا چاہیے تو جیسا میں نے کہا ویسا ہی کرو ورنہ چلے جاؤ۔‘‘
وہ غصے میں بڑ بڑاتے ہوئے چلا گیا۔
میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا تھا میں نے ہار مانتے ہوئے اپنی ویزا درخواست دے دی۔ میری فیملی میرے جرمنی پہنچنے کے بعد ہی ویزا کے لیے درخواست دے سکتی ہے۔ میرے اہلیہ کو نوابشاہ سے جرمنی تک دو بچوں کے ساتھ تنہا ہی سفر کرنا پڑے گا۔
میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرا یہ تجربہ کافی ناخوشگوار تھا۔ میں مانتا ہوں کہ ایسے کئی درخواست گزار ہوتے ہیں جو غلط معلومات اور جعلی کاغذات فراہم کر کے دھوکہ دیتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کراچی میں جرمن قونصل خانے کا اسٹاف پاکستانیوں سے ایسا توہین آمیز رویہ اختیار کرے.
تبصرے (19) بند ہیں