• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پاناما لیکس : ایف بی آر نے نوٹس جاری کر دیئے

شائع September 3, 2016

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاناما لیکس میں سامنے آنے والے افراد کو آمدنی کی تفصیلات جمع کروانے کے نوٹس جاری کر دیئے۔

ڈان نیوز کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے وزیر اعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز شریف سمیت 350 سے زائد افراد کو نوٹس جاری کیے گئے۔

رپورٹس کے مطابق سیف اللہ برادران عثمان سیف اللہ، انورسیف اللہ، سلیم سیف اللہ، ہمایوں سیف اللہ سمیت سابق وزیر داخلہ اور پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک کو بھی نوٹس جاری کیے گئے۔

ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر اقبال کا تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس پر حکومت اور اپوزیشن قانونی جنگ کیلئے تیار

ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے قریبی رشتہ دار الیاس معراج، ثمینہ درانی کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے۔

ایف بی آر نے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض، بزنس مین صدرالدین ہاشوانی، اعظم سلطان، مرتضی ہاشوانی، سلطان علی الانہ، گل محمد تابا، ذوالفقار لاکھانی اور عقیل حسین سے بھی تفصیلات طلب کی ہیں۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے تمام افراد کو 15 روز میں جواب دائر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

مزید پڑھیں : ’آف شور‘ اکاؤنٹس کیا ہیں؟

ایف بی آر نے 2001 کے انکم ٹیکس آرڈیننس 176 کے تحت جاری کیے گئے، ایف بھی آر کے مطابق نوٹسز میں بیرون ملک آف شور کمپنیوں سے متعلق تفصیلات مانگی گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تمام افراد سے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کی تصدیق مانگی گئی ہے جبکہ ایف بی آر نے آف شور کمپنیوں کی مالیت اور سرمایہ کے ذرائع کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔

نوٹس میں پراپرٹیز کے ایڈریس اور ان کی ملکیت رکھنے والے افراد کے شناختی کارڈ نمبرز بھی مانگے گئے ہیں۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟

- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ 5 ماہ قبل پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

صحافیوں کے گروپ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پاناما پیپرز سے متعلق دستاویزات دو قسطوں میں جاری کیے تھے، دونوں اقساط میں 350 سے زائد پاکستان کی طاقت ور اور اثرو رسوخ رکھنے والے شخصیات کے نام سامنے آئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما پیپرز: پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، یوکرائن، آرجنٹائن اور یو اے ای کے صدور، سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے رشتہ داروں، شام کے صدر بشار الاسد، چین کے سابق وزیر اعظم، اقوام متحدہ کے سابق سربراہ کوفی عنان کے بیٹے اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت درجنوں حکمرانوں یا ان کے عزیزوں کے نام شامل ہیں۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

پاناما لیکس میں دعویٰ کیا لگایا گیا تھا کہ جس وقت نواز شریف اپوزیشن میں تھے انھوں نے ایک ڈچ بینک سے لندن میں موجود ان کے 4 فلیٹس پر 70 لاکھ پاؤنڈ کا قرضہ حاصل کیا تھا جو برطانیہ کی ورجن آئی لینڈ نامی آف شور کمپنی کی ملکیت تھے۔

خیال رہے کہ پاناما لیکس کی جانب سے جاری کی جانے والی پہلی فہرست کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور اپوزیشن نے پاناما لیکس میں نام آنے کے باعث ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل

آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ وہ مشہور زمانہ وکی لیکس کی طرح دستاویزات کی بھرمار نہیں کرے گا، بلکہ دنیا بھر میں امیر افراد کی جانب سے قائم کی گئیں 2 لاکھ آف شور کمپنیوں کے نام اور ان کے حوالے سے دیگر معلومات سے متعلق انکشافات کرے گا۔

• آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو عوامی احتجاج کے باعث مجبور ہو کر عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

• برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے والد کی قائم کردہ آف شور کمپنی سے منافع حاصل کیا۔

• روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے قریبی رشتہ دار کا نام سامنے آیا، جس کے بعد روسی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ پاناما پیپرز، ان کے خلاف امریکا کی سازش ہے۔

• ارجنٹینا کے صدر ماریکیو ماکری کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق سامنے آیا۔

• چین میں سیاسی رہنماؤں کے خاندان کی آف شور کمپنیوں سے تعلقات سے خبریں میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر چلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔

• پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی ان کے بچوں کے حوالے سے پاناما لیکس میں سامنے آیا، جس کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

• دیگر مشہور افراد، جن میں دستاویزات افشا ہونے کے بعد بے چینی پیدا ہوئی، ان میں اسٹار فٹبالر لیونل میسی، ہانگ کانگ کے فلم اسٹار جیکی چین اور ہسپانوی فلم ڈائریکٹر پیڈرو الموڈور کے نام شامل ہیں۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تاہم بعد ازاں جوڈیشل انکوائری پر اتفاق کیا گیا جس کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے اپنے خطاب میں کیے گئے اعلان کے مطابق سپریم کورٹ کو کمیشن کے قیام کے لیے خط ارسال کیا تاہم چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کمیشن بنانے سے متعلق حکومتی خط کو اعتراضات لگا کر واپس کر دیا تھا۔

حکومت کو جوابی خط میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے لکھا کہ جب تک فریقین مناسب ضوابط کار پر متفق نہیں ہوجاتے، کمیشن تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ حکومتی ضوابط کار بہت وسیع ہیں، اس کے تحت تحقیقات میں برسوں لگ جائیں گے اور جس خاندان، گروپ، کمپنیوں یا افراد کے خلاف تحقیقات کی جانی ہیں ان کے نام فراہم کرنا بھی ضروری ہیں۔

جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی بنی تھی، گزشتہ 4 ماہ میں حکومت اور اپوزیشن میں جوڈیشل کمیشن کے حوالےسے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر متفق نہ ہو سکے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024