کرسچن کالونی کے حملہ آور غیر ملکی تھے، چوہدری نثار
مردان: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پشاور کی کرسچن کالونی پر حملہ کرنے والے تمام غیر ملکی تھے، تاہم حملہ آور کہاں سے آئے اور انھیں کن لوگوں نے سہولت فراہم کی، اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔
مردان میں ضلع کچہری کے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ وارسک روڈ پر کرسچن کالونی میں مارے گئے دہشت گردوں کے حوالے سے بھی انٹیلی جنس معلومات موجود تھیں، وہاں ان کے 3 یا 4 ممکنہ ٹارگٹس تھے، لیکن پولیس اور فرنٹیئر کورپس (ایف سی) نے فوری کارروائی کی اور انھیں ہلاک کردیا۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز پشاور میں ایک رہائشی کالونی پر مسلح افراد کے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں ایک عام شہری اور 4 مشتبہ دہشت گردوں سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں:پشاور: کرسچن کالونی پر حملہ ناکام، 4 خودکش بمبار ہلاک
سیکیورٹی حکام کے مطابق آپریشن کے دوران 2 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 2 نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں بتایا تھا کہ دہشت گردوں نے پشاور کے وارسک روڈ پر کرسچن کالونی پر حملہ کیا، سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کی اور 4 خودکش بمباروں کو ہلاک کردیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں سے فائرنگ کے تبادلے میں 2 ایف سی اہلکار، ایک پولیس کانسٹیبل اور 2 سویلین گارڈز زخمی ہوئے۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) شفقت ملک نے بتایا تھا کہ چاروں حملہ آوروں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں، جن کے قبضے سے 5 دستی بم اور رائفلیں بھی برآمد ہوئیں۔
پشاور کی کرسچن کالونی پر حملے کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ضلع کچہری کے گیٹ پر بھی خودکش دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:مردان میں خود کش دھماکا، 13 افراد ہلاک
اس حوالے سے وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گرد پشاور، بنوں اور مردان میں آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
'دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا صفایا باقی ہے'
میڈیا بریفنگ کے دوران چوہدری نثار نے کہا کہ دہشت گرد بندوق اور توپوں کی جنگ ہار چکے ہیں اور پاکستان سے ان کا صفایا ہوچکا ہے لیکن ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ابھی باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2009 سے 2013 تک ہر روز 5، 6 دھماکے ہوتے تھے، اس زمانے میں دھماکے ہونا خبر نہیں تھی بلکہ خبر یہ تھی کہ کس دن دھماکے کم ہوئے۔
وزیر داخلہ نے بتایا کہ '2013 کے بعد ہم نے پالسیی بنائی، پہلے مذاکرات کیے اور جب دیکھا کہ یہ لوگ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں تو پھر ان کے خلاف ضرب عضب شروع ہوا'۔
واضح رہے کہ جون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر حملے اور طالبان سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد فاٹا کی ایجنسی شمالی وزیرستان میں پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تھا۔
'ہم پاکستان کی مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں'
میڈیا بریفنگ کے دوران چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 'ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک مشکل جنگ جیتی ہے اور اب جو چھپے ہوئے دہشت گرد ہیں، ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہے'۔
ساتھ ہی انھوں نے زور دیا کہ جب بھی اس قسم کا (دہشت گردی کا) واقعہ ہو تو پوری قوم کے اتحاد و اتفاق کا پیغام جانا چاہیے، ہمیں تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 'جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں، وہ پاکستان کے مستقبل کی جنگ ہے، مشکل مرحلہ ہم پورا کرچکےہیں، اس پر سیاست کرنا پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے، ابھی بھی بہت سارا کام باقی ہے جو اتحاد و اتفاق سے کیا جاسکتا ہے'۔
تبصرے (1) بند ہیں