• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

سعودی عرب میں تنخواہوں سے محروم پاکستانیوں کی مشکلات

شائع September 1, 2016 اپ ڈیٹ September 2, 2016

کراچی: سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے ہزاروں پاکستانی شہریوں کی مشکلات میں ہر گزرتے روز کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے، تنخواہوں سے محروم ان پاکستانیوں کے ورک پرمٹ بھی ختم ہوچکے جس کی وجہ سے انہیں گرفتاری کا خوف لاحق ہے۔

سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے ایک پاکستانی نے ٹیلی فونک انٹرویو میں ڈان کو بتایا کہ ’کام کے بعد ہم فوراً اپنی قیام گاہ میں واپس آجاتے ہیں، باہر نکلتے ہوئے ہمیں گرفتاری کا خوف رہتا ہے‘۔

ایک تعمیراتی کمپنی یونائیٹڈ سیماک مبینہ طور پر کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی میں ناکام ہے اور یہاں کام کرنے والے تقریباً 100 پاکستانی ملازمین غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب: نائب ولی عہد کا معاشی اصلاحات کا اعلان

کمپنی کی جانب سے متعدد بار وعدے کیے گئے کہ وہ جلد ملازمین کے بقایا جات ادا کردیں گے تاہم یہ وعدے وفا نہ ہوسکے اور مجبوراً ملازمین کو انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے معاملے کو لیبر کورٹ لے جانا پڑا۔

تاہم اس عدالتی جنگ کا فیصلہ اب تک نہیں آیا اور وطن سے دور روزی کمانے کی غرض سے آنے والے ان افراد کی امیدیں اب دم توڑتی جارہی ہیں۔

ایک مزدور نے دہائی دی کہ سعودی عرب میں ان کے قیام کے اجازت ناموں کی تجدید نہیں ہوئی کیوں کہ ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ تجدید کی فیس ادا کرسکیں۔

کئی افراد کو کمپنی نے ٹیکنیکل اسٹاف کے طور پر ملازمت پر رکھا ہوا ہے، گزشتہ 10 سال سے اس کمپنی میں بلڈوزر آپریٹر کے طور پر کام کرنے والے *علی شاہ نے بتایا کہ کمپنی پر ان کے 35 ہزار سعودی ریال( تقریباً 9 لاکھ 80 ہزار روپے) واجب الادا ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ یونائیٹڈ سیماک کمپنی میں صرف پاکستانیوں کو ہی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں بلکہ یہاں مختلف ممالک کے 500 سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں اور ان سب کو ان ہی مشکلات کا سامنا ہے۔

علی شاہ نے بتایا کہ سعودی عرب میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا رجحان نیا ہے، اس سے قبل انہیں کبھی تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

اوسطاً ملازمین کو 9 سے 16 ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں جبکہ بعض افراد ایسے بھی ہیں جنہیں 19 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔

تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اس امید پر کمپنی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ ایک دن ان کے تمام بقایا جات ادا کردیے جائیں گے اور حالات دوبارہ معمول پر آجائیں گے۔

بیرون ملک سے ملازمت کیلئے آنے والوں کے پاسپورٹس بھی کمپنی کے پاس ہوتے ہیں اور کسی عزیز کے انتقال یا ایمرجنسی ہونے پر بھی وہ اپنے ملک نہیں جاسکتے جب تک کمپنی پاسپورٹ ان کے حوالے نہ کردے۔

اقامہ کا مسئلہ

سعودی عرب آنے والے غیر ملکیوں کو قانونی طور پر قیام کیلئے اقامہ جاری کیا جاتا ہے اور اس وقت کئی افراد ایسے ہیں جن کے اقامے فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہوچکے ہیں۔

سعودی عرب میں پریشانی کا سامنا کرنے والے ایک پاکستانی باسط شیخ نے اقاموں کی تجدید نہ ہونے کا ذمہ دار بھی کمپنی کو ٹھہرایا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کی جانب سے ملازمین کو تنخواہ ہی ادا نہیں کی جارہی تو وہ اقامہ کی تجدید کیلئے فیس کہاں سے بھریں گے؟

باسط شیخ کہتے ہیں کہ انہیں حال ہی میں زائد المعیاد اقامہ رکھنے کی وجہ سے حراست میں لے لیا گیا تھا اور 7 دن تک جیل میں رکھا گیا۔

مذکورہ کمپنی میں کام کرنے والے ایک ملازم نے وہاں موجود 100 پاکستانی شہریوں کی فہرست تیار کی ہے جن میں سے 77 کے اقامے زائد المعیاد ہوچکے ہیں۔

باسط شیخ کا کہنا ہے کہ اقامہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم میڈیکل انشورنس بھی حاصل نہیں کرسکتے، ’ ہمارے پاس کھانا کھانے کے پیسے نہیں ہیں تو ڈاکٹر کے پاس جانے کے پیسے کہاں سے آئیں گے‘؟

رواں برس جنوری میں جب ملازمین نے کمپنی کے خلاف لیبر کورٹ میں درخواست دائر کی تو باسط شیخ اور ایک اور پاکستانی نے ملازمین کو درپیش مشکلات سے عدالت کو آگاہ کیا تھا۔

ڈان کے ساتھ شیئر کیے جانے والے دستاویز کے مطابق درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں پچھلے مہینوں کی تنخواہیں ادا کی جائیں اور ان کے اقاموں کی تجدید کی جائے۔

باسط شیخ نے بتایا کہ تین سماعتوں کے بعد اس کیس کو اعلیٰ عدالت میں بھیج دیا گیا، آخری سماعت میں کمپنی کا نمائندہ بھی پیش ہوا تھا اور ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ ملازمین کی مشکلات حل کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔

ملازمین کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں کیوں کہ ان کے پاسپورٹس کمپنی کے پاس ہیں اور ان کے لیے سفر کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

ایک کمپنی میں گزشتہ 12 سال سے ملازمت کرنے والے سعد خان نے بتایا کہ ’اگر میں آج نوکری چھوڑ دوں تو وہ مجھے پاسپورٹ دے دیں گے اور مجھے جانے کی اجازت دے دیں گے لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو مجھے اپنے بقایا جات سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔‘

سعد خان کا کہنا ہے کہ یہ آپشن سود مند نہیں کیوں کہ ان کی 11 ماہ کی ادائیگیاں زیر التواء ہیں۔

کمپنیوں کے مسائل

تعمیراتی کمپنی کے ملازمین کی حالت زار کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت نے اپنے سرکاری اخراجات میں کمی کردی ہے اور اس کا اثر سب سے زیادہ تعمیراتی کمپنیوں پر پڑا ہے۔

کمپنی کے جنرل منیجر ابو محمد نے مبینہ طور پر آئن لائن نیوز ایجنسی مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ کمپنی کو ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ سعودی حکومت نے مکمل شدہ پروجیکٹس کی ادائیگیاں بھی نہیں کی ہیں۔

کمپنی کے نمائندگان سے موقف جاننے کیلئے متدد ٹیلی فون کالز اور ای میلز کی گئیں تاہم ان سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔

جولائی میں پاکستانی دفتر خارجہ نے صورتحال کا نوٹس لیا تھا جب ایک اور کمپنی تقریباً 500 پاکستانی ملازمین کو ان کے بقایا جات ادا کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں:سعودی عرب میں ہندوستانی شہریوں کیلئے مفت راشن

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بتایا کہ وزارت خارجہ اور ریاض میں پاکستانی سفارتخانہ اپنے شہریوں خاص طور پر دمام کے سعد گروپ آف کمپنیر میں ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کی مشکلات کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔

سعد گروپ آپ کمپنیز میں 8 ہزار افراد کو عدم ادائیگی کا سامنا ہے جبکہ یونائیٹڈ سیماک کمپنی کے ملازمین کو یہ بھی خطرہ ہے کہ چھوٹی کمپنی کا ملازم ہونے کی وجہ سے انہیں نظر انداز نہ کردیا جائے۔

باسط شیخ نے بتایا کہ ایک ہفتہ قبل ہم اپنی شکایت لے کر پاکستانی سفارتخانے بھی گئے تھے لیکن وہاں سے بھی ہمیں تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

معاملہ عدالت میں ہونے اور دیگر کوئی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین کمپنی کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔

سعد خان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار کمپنی کی جانب سے ملازمین کو معمولی رقم فراہم کردی جاتی ہے، حال ہی میں ریاض میں ملازمین کو کمپنی کی جانب سے 50 ریال (1400 روپے) دیے گئے۔

تاہم یہ رقم اتنی کم ہے کہ اس میں اپنا خرچہ نکالنا بھی مشکل ہے گھر والوں کو پیسے بھیجنا تو بہت دور کی بات ہے۔

نوٹ: یہاں ملازمین کی شناخت کو ظاہر نہ کرنے کیلئے ان کے نام تبدیل کیے گئے ہیں کیوں کہ وہ میڈیا سے بات کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔

اضافی رپورٹنگ: ماہ نور باری

یہ رپورٹ یکم ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


تبصرے (2) بند ہیں

qalati Sep 01, 2016 01:06pm
WHAT IS PAKISTAN EMBASSY OR OVERSEAS MINISTRY IS DOING ? IS PAKISTAN EMBASSY IS UNCONCERNED, AS HAS BEEN THE SITUATION ALWAYS EVERY WHERE IN TEH WORLD.
Kamran Bhatti Sep 01, 2016 05:33pm
@qalati I am one of the victims of above mentioned company "United Seemac". Pak Embassy is busy dealing with 2 or 3 major companies. We are being ignored due to short number of people. Although our problems are bigger as compare to major companies but no one cares about it & this is the main reason that our company managment is not serious to solve our problems.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024