شامی جنگ کا تاوان
کچھ دن پہلے شام کے شہر حلب میں سرکاری فوج کی بمباری کے دوران زخمی ہونے والے بچےعمران دقنیش کی ویڈیومنظر عام پر آئی۔ تین چار سال کے اس بچے کو، جو کہ خاک اور خون میں لت پت تھا، ایک امدادی کارکن ایمبولینس پر لایا تھا۔
بظاہر اس بچے کو والدین کا کچھ اتا پتا موجود نہیں تھا۔ اس کا بھائی جو اس وقت زخمی تھا بعد میں ہسپتال میں جاں گزیں ہوگیا۔ یہ بچہ جس نے اپنی زندگی کی چند بہاروں میں سوائے خوف، بھوک اور افلاس کے کچھ نہ دیکھا ہوگا، اتنا سن ہو چکا تھا کہ اسے احساس بھی نہ تھا کہ وہ زخمی ہے۔
جب اپنے سرپر پڑی خاک صاف کرتے ہوئے، اس کے ہاتھ سرخ ہوئے تو اس نے ایک شکستگی کے ساتھ واپس یوں رکھ لیے جیسا ان کا قرمزی رنگ ہونا فطرت کے عین مطابق ہو۔
پہلے ایلان جو سمندر کنارے مردہ پایا گیا اور اب عمران؛ شام کی جنگ میں سب سے بڑا تاوان بچوں نے ادا کیا ہے۔
2001 میں 11 ستمبر نے دنیا کی شکل ہی تبدیل کر دی۔ 2003 میں امریکی افواج عراق میں داخل ہوئیں اور دہائیوں سے اقتدار پر قابض صدام حسین نکالے گئے۔
پڑھیں: دشمن بھی دیکھ کے جس کو غمناک ہوگئے
2004 میں لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں اور عام شہریوں پر اسرائیل نے بمباری کی۔ امریکی وزیرِ خارجہ کونڈو لیزا رائس نے اس تنازعے کو مشرق وسطیٰ کے لیے دردِ زہ قرار دیا ”ایک ایسی تکلیف دہ منزل جس کے بعد نئی صبح کا طلوع ہونا ہو”۔
اس جنگ کے بعد شام کی افواج جو لبنان میں تقریبا ڈیڑھ دہائی سے موجود تھیں، واپس چلی گئیں۔ 2010 میں تیونس کے حکمران زین العابدین بن علی جو 1987 سے اقتدار میں تھے، کے خلاف تحریک چلی اور انہیں حکومت سے الگ ہونا پڑا۔
مصر میں تحریر اسکوائر پر مصری عوام نے حسنی مبارک جو خود ایک لمبے عرصے سے حکمرانی کر رہے تھے، کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ لیبیا میں طویل الحکومت کرنل قذافی کی حکومت کو باغیوں نے ہٹایا، شام میں بشار ال اسد جو خود تو نئے تھے، مگر ان کے خاندان نے لمبی حکمرانی کی، کے خلاف بغاوت پھیل گئی۔
جلد ہی شام، یمن، بحرین، سعودی عرب اور اردن تک میں اس عرب بہار کی لہریں پھیل گئیں جس کا مطمعِ نظر مشرق وسطیٰ میں رائج نام نہاد جمہوریتیں تھیں، تاکہ ان کو مغربی نظام کی عوامی جمہوریتوں میں تبدیل کیا جائے۔
پڑھیں: یمن: باغیوں کے راکٹ حملے میں 7 بچے ہلاک
امریکا، برطانیا، یورپ، فرانس اور کئی ممالک نے دامے، درمے، سخنے اس تبدیلی میں اپنا حصہ ڈالا۔ عرب ممالک، ایران، پاکستان اور دوسرے لوگ کہیں پر باغیوں کے حق میں بولے تو کہیں ان ملکوں نے حکومتوں کی کاسہ لیسی کی۔
مشرقِ وسطیٰ تاش کی ایک ایس بازی بن گیا جس میں ہر فریق اپنے مفاد کے پتے کھیلنے لگا۔ بات جمہوریت اور آمریت سے زیادہ مفادات کے ہونے لگی جس میں ایک ہی ملک کسی ایک جگہ پر تحریک کو شورش اور دوسری جگہ اسے انقلاب کہنے لگا۔ زیادہ مسئلہ ان علاقوں میں آیا جہاں متفرق الخیال لوگ موجود تھے۔
مصر کے جنرل سیسی سعودی حمایت سے مورسی کو اپنی اوقات پر واپس لے آئے۔ لیبیا میں باغی اپنے محسن امریکی سفیر کو مارنے پہنچ گئے۔ شام ایک ایسی قتل گاہ بن گیا جس میں بھانت بھانت کے لوگوں نے اپنے بدلے اتارے۔ سعودی عرب، امریکا، فرانس، برطانیا اور ترکی باغیوں کے حق میں تھے جبکہ ایران اور روس حکومت کے مخالف۔
پڑھیں: شام بحران مذاکرات : سعودیہ اور ایران کا شرکت کا اعلان
مگر جب یہ آگ یورپ اور امریکا کے اپنے گھر جلانے لگی تو داعش اور النصرہ کے خلاف کردوں کو کھڑا کر دیا۔ ترکی کے صدر کو اپنی نشاۃِ ثانیہ کی پڑی تو پہلے 80 کی دہائی کی پاکستانی افغان پالیسی کی طرح جنگجوؤں کو مدد دی، اور جب دھماکے ہونے لگے تو واپسی کی راہ اختیار کرنی پسند کی۔
سعودی عرب اور ایران کا کردار اپنے مخصوص فقہی اور سیاسی تناظر میں 80 کی دہائی سے اب تک مستقل ہی رہا۔ بحرین میں، شام میں اور یمن میں ایک اسلامی ملک دوسرے ملک کے مقابلے میں پراکسی جنگ میں مصروف ہوگئے چنانچہ عرب بہار جاڑے میں تبدیل ہو کر ایک ایسی خانہ جنگی بن گئی ہے جو دردِ زہ تو نہیں، لیکن حمل ضائع ہونے والی کیفیت ضرور ہے۔
زمانہء جدید کی پراکسی جنگوں میں اسلحے کی صورت میں تاجروں نے، تیل کے سوداگروں نے، خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے، باغیوں نے اور غداروں نے ایک ایسی مارکیٹ ایجاد کی ہے جہاں سب سے کم قیمت انسانی جان کی ہے۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ان جنگوں کا ایندھن وہ لوگ ہیں جن کا اس قضیے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ افغان جنگ کے دوران پاکستان آنے والے مہاجرین بچے شاید یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کمیونیسٹ انقلاب اور اسلامی جہاد میں وردیوں کے علاوہ کیا فرق ہے۔
یمن میں ہسپتال میں آسمان سے اترتے بم کے شکار مریض حوثیوں کے جنگجو نہیں تھے۔ شام کا یہ بچہ اتنا کم عمر ہے کہ کسی فقہی اختلاف یا سیاسی تعبیر سے زیادہ پلاسٹک کے کھلونوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوگا۔
یہ جنگیں بچوں پر ہی سب سے زیادہ بھاری کیوں ہوتی ہیں؟ اور بالغ لوگوں کے ضمیروں پر ان نازک قبروں کا بوچھ اتنا ہلکا کیوں ہوتا ہے؟
میری کچھ دن پہلے مشی گن میں ریچل کوری کی والدہ سے ملاقات ہوئی۔ ریچل کوری ایک امریکی شہری تھیں جنہیں اسرائیل کے ایک بلڈوزر نے فلسطینی بستیاں مسمار کرنے کے خلاف احتجاج کرنے پر جان بوجھ کر کچل دیا تھا۔
میری ملاقات میڈیا بینجمن سے بھی ہوئی جن کا پنک کوڈ خصوصی طور پر ان سیاسی مفادات کے خلاف ہے جو ریاستیں دنیا میں جنگوں سے حاصل کرتی ہیں۔ سوال دونوں سے میرا یہ تھا کہ ایک عام آدمی کیا کرے؟
پہلی کوشش تو ہر انسان کو یہ کرنی چاہیے کہ اپنے سیاسی حالات اور عالمی تناظر سے باخبر ہو۔ فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت اور قومیت کے چشمے لگا کر نہیں بلکہ حقیقت پسندی کے ساتھ۔ کم از کم اتنا وقت ضرور نکالے کہ اپنے ارد گرد کے ان معروضی حالات کو سمجھ سکے جو کسی نہ کسی طرح ہم سب پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس پر بات کرنی چاہیے۔ ہر جنگ پر، اور ہر قضیے پر کھل کے بات ہونی چاہیے۔ غداری کے مقدمات سے ڈرے بغیر، رشتہ داروں کے غم غصے سے متاثر ہوئے بغیر، قومیت کے دعوے داروں سے سہمے بغیر۔
چاہے ریچل کوری کی طرح بلڈوزر کے آگے آ کر، چاہے عراق جنگ کے خلاف واشنگٹن میں ہونے والے دھرنے کی طرح، چاہے حبیب جالب کی طرح ڈنڈے کھا کر، چاہے اخبار کے ایک کالم کی صورت میں، یوٹیوب کی ایک ویڈیو کی صورت، فیس بک کے ایک شیئر، ایک ٹوئیٹ یا محلے کے نکڑ پر ہونے والی گفتگو میں اپنے اپنے حصے کے سچ کی صورت میں۔
ساحر لدھیانوی نے بہت پہلے لکھا تھا کہ
جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے،
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی،
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اسی لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے، تو بہتر ہے
آپ اور ہم سب ہی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے، تو بہتر ہے
یہ بچہ جو ہم سب کا بچہ ہے۔ ایلان ہو یا عمران، فلسطین کا ہو یا پیرس کا، امریکا کا ہو یا چائنہ کا، کشمیر کا ہو یا بلوچستان کا۔ ہر وہ انسانی جان مظلوم ہے جو چاہے کوئی بھی عقیدہ رکھتی ہے، مگر مقتل میں ہتھیار لے کر نہ اتری ہو۔
ان بچوں سے آپ کو ہمدردی ہے تو جنگوں کے خلاف بولنا ہوگا۔ وہ جنگیں جو وہ طاقور لوگ اپنے مفادات کے لیے مچاتے ہیں۔ وہ جنگیں جن میں عمران کا خون آلودہ ہونا بھی کسی کے بینک اکاونٹ میں منافع کی صورت میں جمع ہوتا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں