متحدہ قومی موومنٹ ایک ناکارہ مشین؟
1980 کی دہائی کے اواخر سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو زبردست انتخابی قوت رکھنے والی جماعت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
جماعت کے گڑھ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس جماعت کی انتخابی سیاست کی ارتقاء اس طرح ہوئی ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران وہ تمام چیزیں جو ایک کامیاب انتخابی مہم چلانے اور انتخاب لڑنے کے لیے درکار ہوتی ہیں، خودبخود اپنی جگہ لینا شروع کر دیتی ہیں۔
اب اس جماعت کی احتجاجی سیاست میں بھی یہی بات دیکھی جا سکتی ہے۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہو جس سے لوگ محسوس کریں کہ ایم کیو ایم متاثر ہوگی، تو متحدہ کی جانب سے کسی بھی ہڑتال کی باقاعدہ کال دیے جانے سے قبل ہی شہر بند ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
دونوں ہی صورتوں میں ایم کیو ایم ایک ایسی مشین کی طرح چلتی ہے جو کسی بھی مظاہرے یا انتخابات کے دوران خودبخود اسٹارٹ ہو کر وہی کام کر ڈالتی ہے جو اسے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کام میں پورا کراچی ایسے شامل ہوجاتا ہے جیسے کہ اس کی فطرت میں یہی شامل ہو۔
عوامیت پسند پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جس کی صفوں اور حامیوں میں کوئی خاص نظم و ضبط یا انتظامی ڈھانچہ نظر نہیں آتا، ایم کیو ایم مکمل طور پر اس کے الٹ ہے۔
ایم کیو ایم ایک بے حد منظم جماعت ہے، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی بنیادی حمایت اس شہر میں ہے جو بذاتِ خود بے ہنگم اور نظم و ضبط سے عاری ہے۔
جماعت کا ڈھانچہ اور کام کرنے کا اندرونی طریقہ کار اس شخص کی نفسیات اور جذبات کا عکاس ہے جس نے اسے پہلے 1978 میں ایک طلباء تنظیم کے طور پر بنایا اور پھر 1984 میں ایک مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت کے طور پر متعارف کروایا۔ اور وہ شخص ہے الطاف حسین۔
الطاف حسین کے ساتھ جن لوگوں نے کام کیا ہے، ان میں سے زیادہ تر نے انہیں اختیارات حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا قرار دیا ہے، ایک ایسا شخص جو ہر صورت میں جماعت میں نظم و ضبط اور ہم آہنگی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہ دو چیزیں وہ ہیں جو ان تین دہائیوں میں اس جماعت میں تو موجود رہی ہیں، مگر اس شہر سے غائب ہوچکی ہیں۔
مگر کراچی کی نظم و ضبط سے عاری فطرت اس جماعت کے مزاج میں پھر بھی دکھائی دیتی ہے۔
اس شہر کی سیاست، معیشت، اور معاشرہ ہمیشہ جس گرداب میں رہے ہیں، اس نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے سخت نظم و ضبط اور انتظام کو استعمال کرتے ہوئے منظم انداز میں ہر اس چیز کو اپنے گھیرے میں لے کر اپنے اندر ضم کر لیتی ہے جو اس گرداب سے جنم لے، پھر چاہے وہ کسی سیاسی اور اقتصادی فائدے کے حصول کے لیے کیا جائے، یا پھر شہر میں سیاسی جماعت کی برتری کو لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا جائے۔
اپنے قیام کے ابتدائی چند سالوں میں، یا 1984 اور 1992 کے درمیان بحیثیتِ مہاجر قوم پرست جماعت اس کا عروج اس قدر ڈرامائی اور فوری تھا، کہ کراچی میں اس کی فیصلہ کن انتخابی کامیابیوں، اور اس کے نتیجے میں کراچی کے مڈل اور لوئر مڈل کلاس اردو بولنے والے طبقے کی سیاسی اور معاشی حیاتِ نو نے جماعت کے ناقدین کو حیرت میں ڈال دیا۔
چوں کہ کراچی کے وسائل اور اس کا لسانی توازن 1980 کی دہائی میں جاری افغان خانہ جنگی کے باعث پاکستان اور پھر کراچی منتقل ہونے والے افغانوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا، لہٰذا کراچی میں جرائم اور فرقہ وارانہ اور لسانی واقات میں تقریباً تین گنا اضافہ ہوا۔
1980 کی دہائی کے وسط تک کراچی، جسے 'روشنیوں کا شہر' اور 'بابِ ایشیاء' قرار دیا جاتا تھا، اور جو کاروبار اور تمام طرح کی تفریح و عیاشی کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اب زبوں حالی کی جانب گامزن ہو چکا تھا۔
اس کا زندگی سے بھرپور شہر ہونے کا نقاب اترنے لگا تو اس کے نیچے وہ سیاہ معیشت دکھائی دی جو اسلحے، منشیات، اغواء اور قتل و غارت پر پل رہی تھی۔
خوف نے شہر کی عوام کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا کیوں کہ ایک لسانی گروہ دوسرے پر اسے دیوار سے لگانے اور شہر کے کم ہوتے ہوئے معاشی وسائل چرانے کا الزام لگانے لگا۔
اور یہی وہ انتہائی خراب حالات تھے جن میں متحدہ قومی موومنٹ نے جنم لیا۔
ایک ایسی سیاسی جماعت، جس نے کراچی کے اکثریتی 'لسانی گروہ' مہاجروں کے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کا نعرہ لگایا جنہیں (اس کے مطابق) پنجابیوں اور پختونوں نے تشدد اور اقتصادی ہتھکنڈوں کے ذریعے دیوار سے لگا دیا تھا۔
اس لیے اس سیاسی جماعت کا اس خراب صورتحال سے متاثر ہونا ضروری تھا جس کے دوران اس کا جنم ہوا تھا۔ چنانچہ اس کا بے انتہا نظم و ضبط، منظم انتخابی قوت اور موجودگی، اس کے ایک زیادہ گہرے اور تاریک ایجنڈے کے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔
ایم کیو ایم کے لیے صرف اچانک شہرت ہی نہیں آئی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسے خوف نے بھی جکڑ لیا؛ یہی وہ احساس تھا کہ جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کو عسکری ونگ قائم کرنے کی ضرورت پڑی۔ اگر وہ ایک ایسے ماحول میں سیاسی فوائد کا حصول جاری رکھنا چاہتی تھی جہاں ریاست اور حکومت کھیل کے قوانین تبدیل کرنے میں بے یار و مددگار نظر آتے تھے، تو ایسا کرنا ناگزیر تھا۔
یہ قوانین نہ کسی پارلیمنٹ سے آئے تھے، نہ عدالت سے، اور نہ ہی کسی کابینہ سے۔ بلکہ انہوں نے شہر کے اسی نئے بطن سے جنم لیا تھا۔
مگر پھر 1992 میں ریاست نے بھی یہاں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
تب تک ایم کیو ایم کی عوامی قوت، انتخابی برتری اور عسکری ونگز ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور نیم دائیں بازو کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کے درمیان سیاسی رسہ کشی کے ہاتھوں بخوشی یرغمال بن چکی تھی،
ایم کیو ایم کو محسوس ہوا کہ وہ ان دونوں سیاسی جماعتوں سے معاشی اور سیاسی فائدے اٹھا کر بہت چالاکی سے اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل این نہ صرف آپس میں برسرِپیکار تھیں بلکہ ان دونوں جماعتوں کی ان انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ بھی انتہائی پیچیدہ چپقلش جاری تھی جو انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونا چاہتے تھے۔
اس سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے 1990 کی دہائی کے دوران دو پی پی پی اور دو پی ایم ایل این حکومتیں گریں، دو 'اسٹیبلشمنٹیرین' صدور کو گھر بھیجا گیا اور سیاسی جماعتوں اور فوج کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوا۔
اس دوران پاکستان کی معیشت تباہ حالی کی جانب گامزن رہی، اور لسانی فسادات کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ تشدد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔
مگر کیا ایم کیو ایم کو اس حکمتِ عملی سے فائدہ ہوا جسے وہ ایک چالاک حکمتِ عملی سمجھ رہی تھی؟
نہیں۔
اس کے بجائے 1992 اور 1999 کے دوران اس کے خلاف فوج، رینجرز اور پولیس کی جانب سے کم از کم تین زبردست آپریشن کیے گئے۔
اب حکومت اور ریاست نے اس کی جائز انتخابی کامیابیوں اور اس کی ناجائز عسکریت پسند صفات کو پریشان کن سمجھ کر کراچی کو اس سیاسی پہیلی سے آزاد کروانے کی ٹھانی جسے اب بھی مسائل کے شکار صوبائی دارالحکومت سے باہر باقی کے سندھ میں سمجھنا مشکل تھا۔
اور اس کے ناقابلِ فہم ہونے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ (ایم کیو ایم کے خلاف تین آپریشنز کے دوران) پی پی پی، پی ایم ایل این اور ریاستی اداروں نے سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایم کیو ایم کے صرف پرتشدد چہرے سے نقاب اٹھایا تھا۔
بلکہ سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد سے باہر رہنے والوں کے لیے 'مہاجر قوم پرستی' کے نظریے کو سمجھ پانا مشکل تھا جس کی بنیاد پر ایم کیو ایم قائم کی گئی تھی، اور جس کی وجہ سے اسے سندھ کے مہاجر اکثریتی علاقوں میں حمایت ملتی تھی۔
کیوں کہ بہرحال ملک کی دیگر چار بڑی قومیتوں (سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ) کے برعکس اردو بولنے والے ایک ایسی 'قوم' نہیں تھے جن کی ایک ہی تاریخ، ایک ہی ثقافت ہو، اور کیوں کہ مہاجر ہندوستان سے پاکستان آئے تھے، اس لیے انہیں 'دھرتی کا بیٹا' نہیں سمجھا جاتا تھا۔
مہاجروں کی دو بڑی لہریں جو 1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد یہاں آئیں، وہ شمالی ہندوستان اور مشرقی پنجاب سے آئی تھیں۔
ان میں سے اردو بولنے والے مہاجروں نے زیادہ تر سندھ میں، جبکہ پنجابی بولنے والے مہاجروں نے زیادہ تر پاکستانی پنجاب میں سکونت اختیار کر لی۔
اردو بولنے والے مہاجر ہندوستان کے ان علاقوں سے آئے تھے جن کی ثقافتیں ایک دوسرے سے کافی مختلف تھیں۔ اس لیے انہیں ایک متحد لسانی گروہ کے طور پر دیکھ پانا نہ صرف پریشان کن تھا، بلکہ ناممکن بھی تھا۔
پاکستان کے قیام کی ابتدائی دو دہائیوں میں اردو بولنے والے افراد پنجابیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی ابتدائی اشرافیہ کا ایک اہم حصہ بن چکے تھے۔ مگر 1960 کی دہائی کے بعد انہیں پختونوں نے اس میدان سے باہر نکال پھینکا تھا، اور یوں انہوں نے خود کو بکھرا ہوا پایا۔
معاشرتی طور پر یہ لوگ لبرل تھے، مگر ایک ایسے ملک میں جہاں لسانی سیاست زور پکڑ رہی تھی، وہاں پر متحد کرنے والی کسی ایک قومی شناخت کے نہ ہونے کی وجہ سے مہاجروں نے خود کو سیاسی طور پر ان قدامت پسند گروہوں کے ساتھ جوڑ لیا جنہیں لسانی سیاست مسترد کر چکی تھی، اور یوں انہوں نے پاکستان کو ایک متحد قوم قرار دیا جس کے اتحاد کی بنیاد مذہب تھا۔
یہ انتظام 1970 کی دہائی کے اواخر تک چلتا رہا، اور اس سے کراچی میں اس تضاد نے جنم لیا جس میں لبرل اور دنیا بھر میں مشہور شہر کراچی انتخابات کے دوران دائیں بازو اور قدامت پسند کی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیا کرتا تھا۔
مگر ایم کیو ایم کے جنم لینے سے یہ چیز تبدیل ہونی شروع ہوگئی۔
مہاجروں کا معاشرتی طور پر لبرل ہونا اور سیاسی طور پر قدامت پسند ہونا اب تحلیل ہو کر ایک نئی شناخت پر مبنی بیانیے پر منتقل ہوگیا جس سے مہاجر قوم پرستی نے جنم لیا، جو کہ معاشرتی اور سیاسی طور پر لبرل تھی مگر اوپر سے یہ معاشی طور پر کمزور نظر آتی تھی۔
یہ پراجیکٹ کامیاب رہا؛ اس طرح کہ پہلے ایم کیو ایم نے کراچی میں سیاسی جماعتوں کے انتخابی سیاسی پر اثر و رسوخ کو بکھیر کر رکھ دیا، اور پھر مہاجروں کو سندھ کے ایک واضح طور پر مختلف لسانی گروہ کے طور پر منظم کیا گیا۔
1992 تک ایم کیو ایم پی پی پی کے بعد سندھ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی۔
مگر سندھ کے دیگر علاقوں، خیبر پختونخواہ اور پنجاب سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی کراچی نقل مکانی کے باعث کراچی شہر کی اقتصادیات اور وسائل پر دباؤ بڑھنے لگا جس کی وجہ سے کراچی کی پولیس اور دیگر سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانی میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
اب شہر کی سیاسی طاقت اور معاشی وسائل کو ایک برادری کے حق میں کرنے کے لیے واضح طور پر طاقت کے استعمال کی ضرورت تھی۔
اور اس طرح شہر کی سب سے نمایاں سیاسی جماعت کے 'عسکری ونگز' نے جنم لیا۔
ان تنازعات کی وجہ سے ایم کیو ایم نے شہر کے کئی علاقوں کو مہاجر علاقوں میں تبدیل کر دیا جہاں صرف اس کا راج چلتا تھا۔
مگر اس کے نتائج تباہ کن تھے۔ مہاجروں کی تکثیریت اور کھلے ذہن پر مبنی شناخت اب ایسی تنگ نظری سے تبدیل ہوچکی تھی، جس نے خود کو ایک متشدد انداز میں متعارف کروایا جس کی وجہ سے 1990 کی دہائی کے دوران ریاست اور دو حکومتوں نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیے۔
2002 میں ایم کیو ایم نے خود کو گذشتہ دہائی میں پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، اور اس کام کے لیے اس نے جنرل مشرف کی آمریت (2008-1999) کا ساتھ دے کر ریاست کی گود میں بیٹھنے کی کوشش کی۔
اب اس سیاسی جماعت کی مہاجر قوم پرستی میں دو مزید جہتوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔
اس نے مہاجروں کو 'اردو بولنے والے سندھیوں' کے طور پر متعارف کروانا شروع کر دیا جو کہ سندھ کے سندھی باسیوں سے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی تعلیمات کے ذریعے جڑے ہوئے تھے۔
یہ ایم کیو ایم کا مہاجروں کو سندھی معاشرے میں ضم کرنے کی پرانی کوششوں کی ناکامی کے بعد ایک نیا طریقہ تھا۔
ایک اور جہت جس نے اس دوران (ایم کیو ایم کے ذریعے) مہاجر برادری میں جنم لیا، وہ سندھ کے شہری، مہاجر اکثریتی علاقوں میں مہاجر شناخت کے رجحان کی طرف توجہ دینا تھا۔
یہ جہت پاکستان کے مسلم اکثریتی ملک ہونے کے تناظر میں مہاجر قوم پرستی کو سمجھنے میں مددگار ہے۔
یہ مہاجر قوم پرستی کو اس سیاسی سماجی لبرل ازم کے ذریعے سمجھاتی ہے جو کہ (سر سید احمد خان کی تشریحات کے جیسے) 19ویں صدی کے 'عقلیت اور ترقی پسند اسلام' کی جدید شکل ہے۔ یہ روحانی ترقی کو مادی ترقی کا شاخسانہ قرار دیتی ہے (جو جدید آزاد تجارتی نظام، سائنس، آرٹس، اور عقائد کی سیاست سے علیحدگی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔)
بظاہر تو مشرف حکومت کے دوران ایک تعمیری سیاسی جماعت کی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ایم کیو ایم نے اپنے عسکری ونگز کو ختم کر دیا تھا۔ مگر جہاں اس نے کراچی کو ایک طویل عرصے کے بعد ترقی اور امن کا دورانیہ دیا، وہیں اس نے دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے بھی دروازہ کھول دیا کہ وہ شہر میں ایم کیو ایم کی برتری ختم کر سکیں۔
جب 2007 میں ملکی معیشت نے دوبارہ نیچے جانا شروع کیا، تو اس وقت تک 2000 کی دہائی کے اوائل کی معاشی خوشحالی اور ترقی پہلے ہی پنجاب، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے دیگر علاقوں سے بے پناہ افراد کو کراچی تک کھینچ لائی تھی۔
مشرف دور کی چمک دھمک اب اترنے لگی تھی اور کراچی کے وسائل ایک بار پھر دباؤ کا شکار ہوگئے تھے۔
مسائل کی شکار جائز معیشت اب ایک بار پھر انہی کے سہارے پر منحصر ہوگئی، جنہوں نے ایم کیو ایم کی برتری کو ان اداروں اور کاروباروں سے ختم کر دیا تھا جن کی وجہ سے اسے سرمایہ اور سیاسی قوت حاصل ہوتی تھی۔
ایم کیو ایم کا ردِعمل بوکھلاہٹ اور اس اچانک احساس پر مبنی تھا کہ کراچی میں مہاجر اکثریت 1981 میں 51 فیصد سے کم ہو کر 1998 میں 48 فیصد اور 2008 میں صرف 41 فیصد رہ گئی تھی۔
بھلے ہی ایم کیو ایم اس پی پی پی حکومت کا حصہ تھی جو مشرف حکومت کے فوراً بعد اقتدار میں آئی، مگر اب اس کی اسٹریٹ پاور پر پیپلز پارٹی اور پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے عسکری ونگز کی اجارہ داری ہوگئی تھی۔ اے این پی بھی اب کراچی میں ایک چھوٹی سی قوت کے طور پر ابھرنے لگی تھی کیوں کہ کراچی کی پختون آبادی اب 20 فیصد ہوچکی تھی۔
مشرف حکومت میں اس نے شہر میں جو کچھ کھویا تھا، اسے پانے کے لیے بے چین ایم کیو ایم نے بطور اتحادی انتہائی عجیب اور غیر ممکنہ رویے کا اظہار کیا۔
پھر 2010 کے بعد کراچی میں حالات مزید خراب ہوگئے جب فرقہ وارانہ اور انتہاپسند تنظیموں نے کراچی میں اپنی دکانیں کھولنی شروع کیں۔
ان تنظیموں کی مضبوط مسلح حکمتِ عملی کی وجہ سے اے این پی کا اثر و رسوخ ختم ہو چکا تھا، جبکہ پی پی پی کا عسکری گروہ اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔
اب جبکہ کراچی شہر کے باقی بچ چکے وسائل اور اثاثوں کو حاصل کرنے کے لیے میدان میں نئے کھلاڑیوں کی آمد جاری ہے، تو وہیں ایم کیو ایم لڑکھڑاہٹ کا شکار ہے۔
سیاسی جماعت کی قیادت کے اندر اختلافات واضح ہیں۔ کچھ لوگ اسے ویسے ہی رہنے دینا چاہتے ہیں جیسے کہ یہ مشرف دورِ حکومت میں تھی، جبکہ کچھ اس کی مہاجر قوم پرست سیاسی جماعت کے طور پر تشکیلِ نو چاہتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کا مستقبل غیر یقینی تو ضرور ہے، مگر تاریک نہیں۔ کیونکہ نہ صرف یہ کہ اس نے 1990 کی پوری دہائی کے دوران کریک ڈاؤن جھیلے ہیں، بلکہ یہ انتخابی مشین اب بھی مکمل طور پر فعال اور کارآمد ہے۔
یہ مضمون ڈان کی ویب سائٹ پر 5 جون 2014 کو شائع ہوا۔
تبصرے (4) بند ہیں