• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

الطاف حسین کا معاملہ برطانوی حکومت کے ساتھ اٹھانے کا مطالبہ

شائع August 23, 2016

اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین کی ملک مخالف تقاریر اور پارٹی کارکنوں کو ریڈ زون میں ہنگامہ آرائی کیلئے اشتعال دلانے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ برطانوی حکومت کے ساتھ ایسے شخص کے خلاف کارروائی کا معاملہ اٹھائے۔

عمران خان نے کہا کہ کل میڈیا ہاؤسز پر ہونے والے حملے اور ریڈ زون میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی پُرزور مذمت کرتے ہیں اور انھوں نے الزام لگایا کہ یہ سب ایسے شخص کے کہنے پر کیا گیا ہے جو برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں انتشار پھیلانے کی باتیں کرتا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ اگر برطانوی حکومت خود سے الطاف حسین کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو میں حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ وہ فوری طور پر اس معاملے پر برطانوی حکومت سے بات چیت کرے۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان میں ہوں گے، فاروق ستار

انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر کسی شخص پر ہندوستان میں آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق کا الزام لگایا جاتا تو وہ اسے کتنے دن تک آزاد چھوڑتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک پارٹی کے سربراہ پر بار بار الزام لگایا جاتا ہے اوراس کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ وہ پاکستان اورخاص طورپر کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور انتشار پھیلانے کیلئے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی 'را' سے فنڈز اور مدد لے رہا ہے تاہم اس کے خلاف کارروائی نہیں کی جارہی'۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ اس سے قبل ایسے شخص کے خلاف کارروائی اس لیے عمل میں نہیں لائی جاسکی کیونکہ اس شخص کی پارٹی پچھلی تمام حکومتوں کی اتحادی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم کا مرکز نائن زیرو سرچ آپریشن کے بعد سیل

عمران خان نے انکشاف کیا کہ کراچی کی تباہی کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہے اور اگر کراچی میں انتشار نہ ہوتا تو آج دبئی اتنا بڑا شہر نہ بنتا۔

انھوں نے ایک مرتبہ پھر زہرہ شاہد کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر لگاتے ہوئے کہا کہ متحدہ کے قائد کی تقریر کے بعد ہی ان کی کارکن کو قتل کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی پارٹی کو کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا جو دہشت گردی میں ملوث ہو اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔

مزید پڑھیں: متحدہ قائد کی تقریر: چوہدری نثار کا برطانوی حکام سے رابطہ

عمران خان نے واضح کیا کہ اردو بولنے والے پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اردو بولنے والے خود کو ایم کیوایم سے الگ کرلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متحدہ میں ہر کوئی دہشت گرد نہیں تاہم الطاف حسین پارٹی کو مافیا کی طرح چلارہے ہیں اور متحدہ کے قائد نے جو زبان استعمال کی وہ کبھی مودی نے بھی نہیں کی۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کارکنوں سے خطاب کے دوران پارٹی قائد الطاف حسین نے ملک مخالف نعرے لگوائے تھے۔

الطاف حسین کا کہنا تھا، 'پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے ایک عذاب ہے، پاکستان پوری دنیا کے لیے دہشت گردی کا مرکز ہے، اس پاکستان کا خاتمہ عین عبادت ہے، کون کہتا ہے پاکستان زندہ باد، پاکستان مردہ باد'۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی ہنگامہ آرائی: 'متحدہ نے خود پر عائد الزامات کو ثابت کیا'

اپنے قائد کی اس تقریر کے بعد کارکن مشتعل ہوگئے اور انھوں نے ریڈ زون کے قریب ہنگامہ آرائی کی، اس دوران کچھ کارکن نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر میں گھس گئے اور وہاں نعرے بازی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جب کہ فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

رینجرز کی بھاری نفری نے متحدہ کے مرکز نائن زیرو، پارٹی کے بانی سربراہ الطاف حسین کے گھر، خورشید میموریل ہال اور ایم پی اے ہاسٹل پر بھی چھاپہ مارا اور وہاں موجود تمام ریکارڈ ضبط کیا اور پارٹی کے کارکنوں سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد تمام جگہوں کو سیل کردیا اور متحدہ کے متعدد رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق رینجرز نے جن رہنماؤں کو حراست میں لیا ان میں فاروق ستار، عامر لیاقت، خواجہ اظہار الحسن، عامر خان، خواجہ سہیل، اشرف وہرہ، کنور نوید، جمیل، شاہد پاشا، قمر منصور اور وسیم احمد شامل تھے۔

ان تمام واقعات کے بعد متحدہ قائد الطاف حسین نے گذشتہ روز اپنی تقریر میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بشمول آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور پاکستان کے خلاف الفاظ استعمال کرنے پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اپنے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، مسلسل گرفتاریوں اور ان کی مشکلات دیکھ کر وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے اور شدت جذبات سے مغلوب ہوکر جو الفاظ وہ ادا کر بیٹھے، وہ انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہیے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024