اسد شفیق: پاکستان کا خاموش نگہبان
دنیائے کرکٹ کا کوئی بھی ملک ہو، سب کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹنگ لائن میں ایک ایسا بااعتماد بلے باز موجود ہو جو مقررہ مقام سے ہٹ کر کسی بھی نمبر پر کھیلنے پر ہر دم تیار ہو، اور جب بھی ضرورت پڑے اسے کسی دوسری پوزیشن پر بھی استعمال کیا جا سکے۔ مشکل و آسان ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کا دم اس میں موجود ہے، وہ کامیابی کو آسان بنائے، اسی طرح جیسے پاک-انگلستان چوتھے ٹیسٹ میں ہوا۔
تیسرے ٹیسٹ میں شکست کے ساتھ سیریز میں برتری حاصل کرنے کا نایاب موقع گنوانے کے بعد پاکستان سخت مایوسی اور تذبذب کا شکار تھا۔ ٹاپ آرڈر اور گیندباز مسلسل دو میچز سے ناکام ہو رہے تھے۔ تجربہ کار یونس خان سے امیدیں تو بہت تھیں، لیکن ابتدائی تینوں مقابلوں میں انہوں نے سوائے اچھل کود کے کوئی اور کام نہیں کیا تھا۔
ان کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیریز میں ان کے اب تک صرف 122 رنز تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے تجربے کی وجہ سے انہیں باہر بٹھانا بھی آسان نہیں تھا۔
اس مشکل صورت حال میں سب کی نظریں اسد شفیق پر پڑیں کہ انہیں بالائی نمبروں پر بھیجا جائے تاکہ یونس خان پر موجود دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ اسد شفیق انتہائی باصلاحیت اور کارآمد بلے باز ہے لیکن ان کی صلاحیتوں کا ادراک جتنی بڑی سطح پر ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں کیا گیا۔
انہیں اتنا سراہا ہی نہیں گیا جتنا ان کا حق تھا حالانکہ ان سے کہیں کم تر کارکردگی دکھانے والے دیگر کھلاڑی کافی پذیرائی سمیٹتے رہے۔ وہ پاکستان کرکٹ کے "گم گشتہ نجات دہندہ" بنے ہوئے ہیں۔
ویسے اسد شفیق طویل طرز کی کرکٹ میں ٹاپ آرڈر کے بیٹسمین ہی ہیں پر یونس خان اور مصباح الحق کی موجودگی کی وجہ سے انہیں چھٹے نمبر پر کھیلنا پڑتا ہے۔ لیکن چوتھے ٹیسٹ میں نائٹ واچ مین یاسر شاہ کے آؤٹ ہونے کے بعد انہیں چوتھے نمبر پر بھیجا گیا۔
یہ ایک مشکل پوزیشن ہے، اور پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک بھی کیونکہ یونس خان مسلسل اسی نمبر پر کھیلتے ہوئے ناکام ہو رہے تھے۔ یہ اسد کے لیے ایک کھلا چیلنج تھا جسے انہوں نے قبول کیا اور پھر پورے تحمل اور بھرپور مہارت سے بلے بازی دکھائی۔ یوں آنے والوں کے لیے بہترین بنیاد تیار ہوگئی۔
جب یونس خان میدان میں اترے تو حالات کافی حد تک مستحکم تھے اور ان موافق حالات کا انہوں نے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا اور ایک تاریخی اننگز کھیلی، اپنے کیریئر کی چھٹی اور بلاشبہ سب سے یادگار ڈبل سنچری!
چھٹے نمبر پر کھیلنے والے بلے بازوں کی شراکت داریاں عموماً آخری بلے بازوں کے ساتھ ہوتی ہیں جو کہ مستند بیٹسمین نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود اسد نے اس نمبر پر کھیلتے ہوئے عظیم کھلاڑی گیری سوبرز کے برابر 8 سنچریاں بنا رکھی ہیں۔
یہاں ان کے رنز کی تعداد ڈھائی ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ یہ کتنے زیادہ رنز ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرکٹ تاریخ میں صرف اور صرف 6 ایسے بلے باز گزرے ہیں، جنہوں نے اس نمبر پر اس سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔
اس بات پر شرط لگائی جا سکتی ہے کہ کرکٹ تاریخ میں ایسا کوئی بلے باز نہیں ہوگا، جس نے اپنے کیریئر کی پہلی سنچری بطور اوپنر بنائی ہو اور بعد میں چھٹے نمبر پر کھیلنے پر بھی راضی ہو، وہ بھی بغیر کسی شکایت یا احتجاج کے۔ پھر وہاں بھی ایسی کارکردگی پیش کرے کہ سر گیری سوبرز کا ہم پلہ ہو جائے؟ اب مصباح اور یونس کے کیریئر کے اختتامی لمحات میں اسد شفیق ہی امیدوں کا محور و مرکز ہوں گے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آخر پاکستانی کرکٹ شائقین ایک ایسے بلے باز کو پذیرائی کیوں نہیں دیتے جو چھٹے نمبر پر کھیلتے ہوئے بھی 40 سے زیادہ کا اوسط رکھتا ہو، اس پوزیشن پر کھیلنے والوں میں سب سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں بنا چکا ہو اور ٹیسٹ درجہ بندی میں دنیا کے 15 بہترین بلے بازوں میں شمار ہو؟
اس کی ممکنہ وجہ اسد شفیق کی خاموش مزاجی ہے۔ کیمرے، انٹرویوز، چکاچوند، ہنگاموں سے دور رہنے والے اسد شفیق خاموش طبع ہیں، وہ خود نہیں بولتے، بس ان کا بیٹ بولتا ہے۔
اسد شفیق پاکستان کے ابھرتے ہوئے لیکن گمنام ہیرو ہیں، ایسے کھلاڑی جن کی موجودگی شاید بہت زیادہ لوگ محسوس نہ کریں، لیکن اس کا احساس ان کی عدم موجودگی میں ہی ہوگا۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.
تبصرے (4) بند ہیں