شام کو اولمپکس جتنی ہی اہمیت دے دیں؟

شائع August 21, 2016

شام میں پچھلے 5 سالوں سے جاری خانہ جنگی کی آگ نے لاکھوں زندگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر برباد کر دیا ہے۔

یہ کیسی جنگ ہے جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی۔ جنگِ عظیم بھی 6 سال جاری رہ کر ختم ہوگئی تھی مگر جنگِ شام کا اختتام ہوتا نظر نہیں آتا۔

جنگ اور تنازع میں گھرے ہوئے شامی باشندے اگر اپنے گھروں کو چھوڑ کر جائیں تو سمندر میں ڈوب کر ترکی کے ساحل پر برآمد ہوں، اور اگر ملک میں ہی رہیں، تو اس شامی بچے جیسا حال ہو جس کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ویڈیو نے سخت سے سخت دل انسان کو بھی یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان معصوم انسانوں کا کیا قصور ہے۔

شمالی شام کے شہر حلب کے اس بچے کا مٹی میں اٹا ہوا جسم، معصوم آنکھیں، سر سے بہتا خون اور برا حال انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے.

4 سے 5 سال عمر کا یہ بچہ شامی فضائیہ کی بمباری میں بچ جانے کے بعد اس قدر حواس باختہ ہے کہ ملبے سے نکالے جانے اور ایمبولینس میں بٹھائے جانے تک بس خاموش ہے۔

نہ کوئی چیخ نہ کوئی پکار۔ صرف ایک خاموشی، مگر اس خاموشی میں ایک وحشت ہے۔ مگر کیا بموں، توپوں اور گولیوں کے شور کی دلدادہ طاقتیں اس خاموشی کے شور کو سن سکتی ہیں؟

پڑھیے: شام میں جنگ بندی کا آغاز

شام میں جاری جنگ میں اب تک کے اندازوں کے مطابق 4 لاکھ افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان 4 لاکھ افراد میں ایسے کئی بچے ہوں گے جن کی نہ کوئی ویڈیو سامنے آئی نہ کوئی تصویر۔

گذشتہ سال سے لے کر اب تک شام میں ہونے والی ہلاکتوں پر عالمی ردِعمل صرف دو مرتبہ آیا ہے، ایک مرتبہ جب ایلان کردی کی لاش ساحلِ سمندر پر آئی، دوسری مرتبہ اب اس بچے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد۔

تو کیا شام کی جانیں تب تک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں جب تک ان کی ایسی دل دہلا دینے والی ویڈیوز سامنے نہ آئیں؟

صرف ایک منٹ کو یہی سوچ لیں کہ ان بچوں کا مستقبل کیا ہے۔ 2011 سے شام میں جنگ جاری ہے، لوگ مر رہے ہیں زنگیاں تباہ ہورہی ہیں پر کوئی پوچھنے والا نہیں، شام میں تعلیمی سرگرمیاں بالکل مفلوج ہوچکی ہیں۔

ایک نسل کو تیار ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہے؟ میرے خیال سے 15 سے 20 سال، اور شام میں جنگ کی وجہ سے ان معصوم بچوں کے 5 سال ضائع ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیے: شامی بچے کی دل لرزا دینے والی تصویر

5 سال سے ناجانے کتنی نسلیں تباہ ہوگئیں۔ یہ وہی بچے ہیں جو مستقبل میں ملک کا چہرہ بنتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جو ملک کو آگے لے کر جاتے ہیں، لیکن ان بچوں کی تقدیر میں اس عمر سے دھماکے، خون، زخم، گولیاں، یہی سب لکھ دیا گیا ہے۔

اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان انہی بچوں نے اٹھایا ہے۔ 5 سال سے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ماں باپ، بہن بھائی، دوستوں اور رشتے داروں کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، کیا یہ نارمل زندگی گزار پائیں گے؟

شام میں ہر کوئی اپنی جنگ لڑ رہا ہے، اپنے مفادات کی جنگ۔ اور مفادات حاصل کرنے کی اس بازی میں جو چیز پیروں تلے روندی جا رہی ہے، وہ انسانیت ہے۔ انسانیت کی اس تذلیل پر سب خاموش ہیں، اور اگر کوئی ملک مداخلت کر بھی رہا ہے، تو وہ بھی اپنے مفادات کے لیے، نہ کہ انسانیت کے تحفظ کے لیے۔

کیا طاقتور ملکوں کے صدور، وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ، جو ان ملکوں میں آگ و خون کی ہولی کھیل رہے ہیں کیا اتنے پتھر دل ہیں کہ اس چھوٹے سے بچے کی ویڈیو دیکھ کر بھی اس جنگ کا خاتمہ نہ کریں؟

اس بچے کو بمباری کا شکار ہونے والی ایک عمارت سے باہر نکالا گیا تھا۔ خود پر قیامت ٹوٹ پڑنے کے بعد بھی یہ بالکل خاموش ہے، چہرے کا ایک حصہ خون آلود ہے، اور کارٹون والی ٹی شرٹ اب مٹی سے اٹی ہے۔

یہ اپنے ہاتھ سے اپنے چہرے کو صاف کرتا تو خون دیکھ کر ایک لمحے کے لیے پریشان ہوجاتا کہ آخر میرے ساتھ یہ ہوا کیا ہے، میرا یہ حال کس نے کیا ہے۔

پڑھیے: ’میں یہاں ہوں، مجھے بچاؤ‘، پوکیمون گو گیم اور شامی بچے

ہم ایک ایسے بدقسمت زمانے میں جی رہے ہیں جہاں کپڑے کے نیلے یا سنہری ہونے کے سوال پر پوری دنیا سر جوڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔ پوکیمون گو دنیا کو وبا کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، لیکن کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اہلِ شام پر آنے والی آفتوں کے بارے میں سوچے۔

شاید اسی لیے پوری دنیا میں جب پوکیمون گو گیم مقبول ہوا تو شام کے بچوں نے اس کھیل کا استعمال دنیا کی توجہ اپنے برے حال کی جانب متوجہ کرنے کے لیے کی کہ شاید ویڈیو گیم کی خاطر ہی کوئی شام کی جانب توجہ کر لے؟

پوری دنیا جس وقت اولمپکس کے کھیلوں میں جیتے جانے والے تمغے شمار کر رہی ہے، وہاں شام کے لوگ آگ و خون کے کھیل میں ہلاک ہونے والوں کو شمار کر رہے ہیں۔

لیکن دنیا آج بھی چپ ہے۔ کیا شام کے لوگوں کی اہمیت کسی کھیل تماشے جتنی بھی نہیں؟

میمونہ رضا نقوی

میمونہ نقوی ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ahmed Bhati Aug 21, 2016 05:32pm
Russian Fighter plane now Flying from Iran i Airbases. who responsible for these crimes?
Sharminda Aug 21, 2016 05:43pm
Shaam say pehlay Kashmir aur Palestine ka number aata hai. In conflicts main common factor par nazar daalain tu andaza karna muskil nahin keh in ka hal aaj tak kion nahin ho paaya. Sudan aur Indonesia main similar conflicts ko kion aur kaisay resolve kia gaya. Again common factor main jawab posheeda hai.

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024