• KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:03pm Isha 6:30pm
  • KHI: Maghrib 5:44pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:27pm
  • ISB: Maghrib 5:03pm Isha 6:30pm

ترکی : 2 کار بم دھماکوں میں 6 افراد ہلاک

شائع August 18, 2016
کار بم حملوں میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا — فوٹو: رائٹرز
کار بم حملوں میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا — فوٹو: رائٹرز

استنبول: ترکی میں دو کار بم دھماکوں میں 6 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔

نقشہ : بشکریہ اے ایف پی
نقشہ : بشکریہ اے ایف پی

مشرقی صوبے وان میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا، حکام نے دھماکوں کی ذمہ داری کرد علیحدگی پسندوں پر عائد کی ہے۔

کار بم دھماکے میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ متعدد پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 6 ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرگئی ہے۔

سرکاری نیوز ایجنسی گفتگو کرتے ہوئے وان کے ڈپٹی گورنر مہمت پرلاک نے کہا کہ دھماکا ’علاقائی دہشت گرد گروہ‘ کی جانب سے کیا گیا۔

انہوں نے 3 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد زخمی ہیں، جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

ترکی خبر رساں ادارے اناطولو کے مطابق سیکیورٹی اداروں نے دھماکے کے بعد جائے وقوع سے شواہد جمع کرنے شروع کیے، پولیس کو ایم او نامی گروہ کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملے۔

فوٹو: رائٹرز
فوٹو: رائٹرز

2015 میں سیز فائر کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد کرد باغیوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو پر متواتر حملے کیے جا رہے ہیں، جس میں متعدد بار اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ جولائی میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے خلاف ناکام ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد کرد باغیوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے) کی جانب سے حملے کیے گئے۔

کرد باغیوں کی جانب سے دیار باقر کے جنوب مشرق میں ہائی وے پر موجود ٹریفک پولیس کی عمارت پر بھی کار بم حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ترک حکومت نے ملک سے کرد دہشت گردوں کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا ہے، جبکہ حکومت فوجی بغاوت میں ملوث افسران کے خلاف کی کارروائی بھی کرے گی۔

بغاوت میں ملوث افراد کے خلاف کارروئی کے لیے ترک حکومت نے 38 ہزار قیدیوں کو جیل سے رہا کرنے کا بھی فیصلہ کیا، قیدیوں کو رہا کرنے کا مقصد بغاوت میں ملوث 10 ہزار افراد کے لیے جیل میں جگہ بنانا ہے۔

یاد رہے کہ فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد سے 15 جولائی کے بعد ترکی میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

ترک خبر رساں ادارے اناطولو کو وزارت انصاف کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق 16 اگست تک جیل میں قیدیوں کی تعداد 2 لاکھ 13 ہزار 499 تھی ، جن میں 26 ہزار قیدی گنجائش سے زائد موجود تھے۔

واضح رہے کہ ترکی میں کرد باغیوں کی تنظیم پی کے کے کی جانب سے 1984 میں علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کی گئی، بغاوت کی اس تحریک میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں دوسری جانب حکومت بغاوت کچلنے کے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی پالیسی بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024