'چند ایک سے بدلے کیلئے سیکڑوں افراد پر حملہ کیوں کیا گیا؟'
کراچی: رواں ماہ 8 اگست کی صبح ایڈووکیٹ امین اللہ کاکڑ کوئٹہ ہائی کورٹ میں موجود تھے جب 9 بجے کے قریب انھیں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کے قتل کی اطلاع ملی، وہ ان چند وکلاء میں سے ایک تھے، جو فوری طور پر سول ہسپتال پہنچے جو ہائی کورٹ سے محض 5 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔
ڈان سے بذریعہ ٹیلی فون بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ امین اللہ (جو بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں) نے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے کا احوال سنایا، جہاں وہ اپنے ساتھیوں سمیت اپنے صدر کے قتل کے بعد موجود تھے۔
حملے کے نتیجے میں امین اللہ بھی شدید زخمی ہوئے تھے، جنھیں دیگر 26 زخمیوں کے ساتھ کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش دھماکا
امین اللہ نے بتایا کہ سول ہسپتال پہنچنے کے بعد انھوں نے پہلے سردخانے کا دورہ کیا جہاں بلال انور کاسی کی میت موجود تھی، امین اللہ کے مطابق، 'ان کے سینے پر 8 گولیوں کے نشان موجود تھے'، جس کے بعد انھوں نے کاسی کے اہلخانہ سے کچھ سوالات کا آغاز کیا۔
امین اللہ نے بتایا، 'میں نے بلال انور کاسی کے بھائی طارق کاسی (جو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ہیں) سے سوال کیا کہ کیا ان کا کسی سے ذاتی یا سیاسی تنازع تھا، ہم یہ اس لیے جاننا چاہتے تھے کیونکہ ہم گورنر ہاؤس کے باہر احتجاج کرنا چاہتے تھے اور بلال انور کاسی کی میت کو لے جانے کے لیے ہمیں ان کے اہلخانہ کی اجازت درکار تھی تاہم طارق کاسی نے کسی بھی گروپ کے ساتھ تنازع کی تردید کردی'۔
بلال کاسی کے بھائی کا جواب موصول ہونے تک امین اللہ باہر چلے گئے اور وہاں موجود وکلاء سے بات چیت شروع کردی۔ انھوں نے بتایا، 'ہم شعبہ حادثات کے عقب میں کھڑے تھے اور اس حوالے سے گفتگو کر رہے تھے کہ کس طرح بہت سے غیر متعلقہ افراد کو بھی ہسپتال میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے'۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ دھماکا: ملزمان کی گرفتاری کیلئے 19 اگست کی ڈیڈلائن
انھوں نے مزید بتایا، 'یہ بات پریشان کن تھی جب ہم نے سوچا کہ کہیں ہسپتال کے اندر بھی کوئی حملہ نہ ہوجائے، ہمارے ایک ساتھی نے رضاکارانہ طور پر ہسپتال انتظامیہ سے بات کرنے کا ارادہ کیا، اسی وقت ایک دھماکا ہوا اور میں دیگر متعدد افراد سمیت زمین پر آن گرا'۔
جب امین اللہ کو ہوش آیا تو وہ اپنے فریکچر ہاتھ اور اترے ہوئے کندھے کے ساتھ اسی ہسپتال کے ایک بستر پر موجود تھے، انھوں نے بتایا، 'ہمیں ایسی کوئی دھمکیاں نہیں ملی تھیں جیسی کہ میڈیا پر رپورٹ کی جاتی ہیں، ہاں ہمارے ایک دو ساتھیوں کو دھمکیاں ضرور ملی تھیں، لیکن ہم میں سے کچھ سے بدلہ لینے کے لیے سیکڑوں لوگوں پر حملہ کیوں کیا گیا؟ اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ حملہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا، 'پہلے بار کے صدر پر حملہ، پھر احتجاجی وکلاء کو جمع کرنا اور پھر ہسپتال میں حملہ کرنا'۔
فی الوقت سانحہ کوئٹہ میں زخمی ہونے والے 77 زخمی آخا خان یونیورسٹی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جس کے اخراجات وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت مشترکہ طور پر برداشت کر رہی ہے اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کے اراکین اور عہدیداران تقریباً روزانہ ہی اپنے زخمی ساتھیوں کی عیادت کے لیے وہاں کا دورہ کرتے ہیں۔
امین اللہ کے مطابق وکلاء کا اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والی کالعدم جماعت الاحرار اس حملے میں ملوث نہیں ہے، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا، 'ہم اپنی کمیونٹی کے افراد سے ابھی تک معلومات جمع کر رہے ہیں اور ابھی تک ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کسی عسکریت پسند تنظیم کی کارروائی نہیں ہے، بلوچستان مکمل طور پر زیر نگرانی ہے اور ہمارے صوبے کو جو لوگ کنٹرول کر رہے ہیں وہ اس طرح کے گروپوں کو جمع ہونے اور اپنی رِٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ پیغام دراصل وکلاء برادری کے لیے دیا گیا تھا'۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ دھماکا: جماعت الاحرار کو داعش کنٹرول کر رہی ہے؟
دوسری جانب اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے سربراہ اور سیکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 'جماعت الاحرار ایک حقیقت ہے اور 2014 میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے بعد سے پاکستان میں بہت متحرک ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'عسکریت پسندوں کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے کی تصدیق کے 2 طریقے ہیں۔ جماعت الاحرار کے کیس میں اس کی تصدیق اُن ویڈیوز سے کی جاسکتی ہے جو یہ تنظیم ہر بڑے حملے کے بعد جاری کرتی ہے'۔
عامر رانا نے بتایا، 'جماعت الاحرار نے پاکستان میں 66 حملے کیے، جن میں سے 23 صرف اس سال کیے گئے اور ہر بڑے حملے کے بعد چاہے یہ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں دھماکا ہو یا کوئٹہ کے پولیو ویکسینیشن سینٹر میں دھماکا، اس تنظیم نے ایک ویڈیو ریلیز کرنے کا طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے، جو انھوں نے کوئٹہ دھماکے کے بعد بھی کیا'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'دیگر کیسز میں حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ اُس وقت خود ہی دم توڑ دیتا ہے، جب دعویٰ کرنے والا گروپ اس حوالے سے کوئی ثبوت دیئے بغیر ہی غائب ہوجائے'۔
اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'غیر ملکی ایجنسیوں مثلاً ہندوستان کی خفیہ ایجنسی 'را' پر الزامات عائد کرنا عارضی طور پر مطمئن کرتا ہے لیکن عوام کو ثبوت چاہیے ہوتے ہیں جو ریاست کے پاس موجود نہیں ہیں'۔
تصاویر: کوئٹہ ایک بار پھر خون آلود
دوسری جانب امین اللہ کو 2 دن بعد ہسپتال سے چھٹی دے دی جائے گی لیکن وہ 42 دن تک زیرعلاج رہیں گے، انھوں نے بتایا، 'ڈاکٹرز کے مطابق میرے سیدھے کندھے کے زخم میں پَس پڑ گئی تھی جو 2 سرجریوں کے بعد نکالی گئی، مجھے پیشاب کے مسائل اور کان کا پردہ پھٹ جانے کے مسائل کا بھی سامنا ہے، جس کے مستقل علاج کی ضرورت ہے'۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امین اللہ کا کہنا تھا، ' میں اپنے آپ کو واپس گھر جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہا ہوں، ہم اس حملے کے بعد کے اثرات کو محسوس کرنے کا آغاز کرنے جارہے ہیں'۔
یہ رپورٹ 16 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں