ہندوستانی فورسزکی فائرنگ،مزید 4 کشمیری ہلاک
سری نگر: ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے مزید 4 کشمیری مظاہرین ہلاک ہوگئے، جس کے بعد ہندوستانی فوج کا نشانہ بننے والے نہتے کشمیریوں کی ہلاکتوں کی تعداد 70 سے زائد ہوگئی۔
ہندوستانی کے خبر رساں ادارے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کشمیر کے مرکزی شہر بیگم ڈسٹرکٹ کے علاقے مگم میں کشمیری نوجوانوں کے احتجاج پر ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں 4 کشمیری ہلاک ہوئے.
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ مگم کے علاقے ایری پٹھان میں کشمیری نوجوانوں کا ایک گروپ سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی گاڑیوں پر پتھر پھینک رہے تھا،جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔
حکام کا دعویٰ تھا کہ فائرنگ سے ایک نوجوان ہلاک جبکہ 7 زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں 11ویں روز بھی کرفیو، ہلاکتیں 44 ہوگئیں
میڈیا رپورٹس مطابق سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے کشمیریوں میں 2 کی حالت تشویش ناک ہے۔
ادھر حزب المجاہدین کے 22 سالہ کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ ہےگھروں سے نکلنے پر پابندی کی وجہ سے مسلسل 39 دن سے معمولات زندگی تاحال مفلوج ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں احتجای مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ اس دوران مظاہروں اور احتجاج پر ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 70 سے زائد کشمیری ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔
پولیس حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ مختلف علاقوں میں کرفیو اور گھروں سے نکلنے پر پابندی کا مقصد حریت پسند تنظیموں کے احتجاج کو روکنا ہے۔
مزید پڑھیں: ہندوستانی فوج کے ہاتھوں 17 کشمیری ہلاک
حریت پسند تنظیموں کے احتجاج کی وجہ سے اسکول، کالج، نجی دفاتر اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے جبکہ سرکاری دفاتر میں ملازمین کی حاضری بھی بہت کم ہوتی ہے، کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی مسلسمل معطل ہے۔
یہاں پڑھیں: جموں و کشمیر: جھڑپوں میں پولیس کمانڈر سمیت 9 ہلاک
واضح رہے کہ ایک روز قبل 15 اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی پر جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا گیا تھا، تاہم مقامی آبادی نے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا اور احتجاج کے لیے کرفیو کے باوجود سڑکوں پر نکلے، فورسز کی فائرنگ، جھڑپوں اور دیگر واقعات میں 9 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔