'شہادت' کا ریاستی سرٹیفکیٹ
اگر میں کہوں کہ میں اس وطن کے لیے مرنا نہیں بلکہ جینا چاہتا ہوں تو کیا اس طرح میں دوسروں سے کم حب الوطن کہلاؤں گا؟
دہشت گرد حملے اس قدر تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ اب تو ہماری قوم کے پاس آنسو بھی کم پڑ گئے ہیں۔
جب جرمن فضائیہ لندن پر بے رحمانہ بمباری کر رہی تھی، اس وقت ایک کینیڈین ماہرِ نفسیات، جے ٹی مک کرڈی نے بمباری سے لندن کے باسیوں کی ذہنی صحت پر پڑنے والے اثرات پر تحقیق کی۔
جن لوگوں نے ذاتی طور پر بمباری دیکھی اور اس سے بمشکل بچ پائے تھے، انہیں حسبِ توقع اس سے صدمہ پہنچا ہے۔ جبکہ دوسری جانب "ریموٹ مسز" (دور رہ کر محفوظ رہنے والے) تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سائرن اور دھماکوں کی آوازیں تو سنی تھیں مگر ہر بار دور ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے۔ اس سے ان لوگوں کے اندر ناقابلِ تسخیر ہونے کا ایک غلط احساس پیدا ہو گیا تھا۔
بجائے اس سوچ کے کہ ایسے ہولناک حادثات کسی کے بھی ساتھ حقیقی طور پر پیش آ سکتے ہیں، ان کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ ہوگیا تھا کہ ایسے حادثات برطانیہ کے کچھ مخصوص بدقسمت حصوں کے لیے معمول کی بات تھی۔
ہم، پاکستان میں موجود دہشتگردی کے ’’ریموٹ مسز‘‘ ہیں۔ ہم شاید ان لوگوں کے دکھ اور درد کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے جنہوں نے اپنے پیارے اچانک کھو دیے۔
اور ہم اپنی اس لاعلمی کا اظہار اپنے قومی فخر اور اپنے "ہم وطنوں کو کھو دینے کے باوجود بھی شکست تسلیم نہ کرنے" کے طور پر کرتے ہیں۔
ہم ان کی ماؤں یا ’’وطن کی ماؤں‘‘ کو ایسی آہنی عورتوں کے روپ میں پیش کرتے ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کچھ مبہم قومی ایجنڈوں پر قربان ہونے کے لیے پالتی ہیں۔ وہ ہم جیسے عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتیں جو اپنے بچوں کو پالتے پوستے ہیں تاکہ وہ دراز عمر جی سکیں۔
آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ہلاک ہونے والے ایک طالب علم عزیر احمد کی والدہ فرح ناز کہتی ہیں کہ، ’’لوگ کہتے ہیں کہ مجھے فخر کرنا چاہیے کیونکہ میرا بیٹا شہید ہے۔ کیا کوئی ماں یہ فخر محسوس کرنے کے لیے مجھ سے اپنے بیٹے کا سودا کرے گی؟‘‘
یہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر ہم قوم کے غم کو سلیوٹ اور عظیم الشان خطابات سے دلاسا نہیں دیں، تو اس سے اپنے مقررہ محافظوں کی اہلیت کے بارے میں شک پیدا ہوسکتا ہے، جن سے ہم نے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
بیواؤں اور یتیموں کو اپنے پیاروں کی بے معنی موت میں ایک معنی مل جاتا ہے اور وہ اس بات پر یقین کر لیتے ہیں کہ ان کے پیاروں کی جان کسی بڑے مقصد کے لیے قربان ہوئی ہے۔ اور ہم اس خیال کی حوصلہ افزائی میں خوش ہیں کیونکہ دوسرا راستہ شدید غم و غصے اور احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے۔
اس کا نتیجہ ریاست کی جانب سے پھیلایا گیا شہادت کا کلچر ہے؛ جو عوام کے لیے افیم کا ایک نیا برانڈ ہے۔
یہ ایک ایسا کلچر ہے جس میں زخم پر فخر کیا جاتا ہے اور ان سیاسی پالیسیوں کے بارے میں کم ہی سوالات پوچھے جاتے ہیں جو ان زخموں کی وجہ بنتے ہیں۔ اور سوال پوچھیں گے بھی کیوں؟ آخر ان زخموں میں ہی تو عزت و شان ہے۔
کوئٹہ میں ہونے والے حالیہ حملے، جب یومِ آزادی میں چند ہی دن رہ گئے تھے، سے اس کلچر کو فروغ دینے کا ایک زبردست موقع فراہم ہو چکا ہے۔
کوک اسٹوڈیو کی جانب سے تازہ ترین خراجِ عقیدت سے لے کر ریڈیو پر پسندیدہ کلاسک نغموں تک، ہم ایک بار پھر ان پرانے درد انگیز نغموں کو سن رہے ہیں جو کہ اب قومی نغموں کے طور پر سنے جاتے ہیں۔
اور اس بار یہ فوجی زبان صرف سرحدوں پر پہرا دے رہے فوجیوں کے لیے استعمال نہیں کی جا رہی بلکہ شام کو باہر پارک میں تفریح کے لیے آنے والے شہریوں اور اسکول میں بریک کے منتظر چھوٹے بچوں کے لیے بھی استعمال کی جا رہی ہے۔
ہم سب بھی اب غیر مسلح فوجی بن گئے ہیں اور ہمیں خود کو فوجیوں کی ہی طرح فولادی حد تک مضبوط بننے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انتہاپسندی اور دہشتگردی کو ناگزیر سمجھ بیٹھی ہے اور اپنے شہریوں کو فوجی جوانوں کی طرح ایک نئے اور دشوار ماحول میں ڈھلنے کی تربیت دے رہی ہے۔
مگر ہم جوان نہیں ہیں۔ ہم اپنے پیاروں کو کھو کر بیٹھے غمگین شہری ہیں۔
ہمیں یہ یقین دلانے کے بجائے کہ ہم محفوظ ہیں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم بہادر ہیں۔
بجائے اس کے کہ ہم اپنی دراز زندگی جیئں، ہمیں اپنے ارد گرد پھیلی موت کی بو کو برداشت کرنے کو کہا جاتا ہے۔
زندگی ایک خوبصورت چیز ہے، اور اس کے چھن جانے پر فخر کرنے کے بجائے اسے محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں۔ آخر ہمیں یہ بات کب سمجھ آئے گی؟
اور کیا یہ سوالات اٹھانا میری حب الوطنی کو مشکوک بنا دیتا ہے؟
تبصرے (9) بند ہیں