نیویارک: امام مسجد سمیت 2 افراد قتل
نیویارک: امریکا میں مسجد کے پیش امام اور ان کے نائب کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
پولیس کے مطابق 55 سالہ پیش امام مولانا اخون جی اور ان کے 64 سالہ نائب تھارا الدین کو نامعلوم مسلح شخص نے پیچھے سے فائرنگ کرکے زخمی کیا اور موقع واردات سے فرار ہوگیا۔
دونوں زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ دونوں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور کو گرفتار نہیں کیا جاسکا اور اس حوالے سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق دونوں مسلمانوں کو نیویارک کے لبرٹی ایوینیو میں دن کی روشنی میں قتل کیا گیا جب وہ ظہر کی نماز کے بعد الفرقان جامع مسجد سے باہر نکل رہے تھے اور انہوں نے روایتی مسلم لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملے کا محرک اب تک سامنے نہیں آسکا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔
پولیس نے صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ ان افراد کو ان کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
نیویارک کے میئر کے دفتر سے سارہ سعید نے کہا کہ نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ اس واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش کررہا ہے جس میں نفرت کی بنیاد پر حملے کا پہلو بھی شامل ہے۔
بروکلن میں الامان مسجد منتظم کبیر چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ بلاشبہ نفرت کی بنیاد پر کیا گیا حملہ ہے اب چاہے آپ اسے کوئی بھی رنگ دے دیں۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن نیویارک چیپٹر کے ڈائریکٹر عفاف ناشر نے واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ صرف مسلمانوں نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف نفرت کا اظہار ہے، یہ اسلام مخالف عناصر کا کام ہے۔
انہوں نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور کہا کہ جب ہم خاموش رہتے ہیں تو دراصل جرائم اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس وقت اخون جی اور ان کے نائب پر حملہ کیا گیا ان کے پاس ایک ہزار ڈالر کی رقم بھی موجود تھی تاہم حملہ آور رقم ساتھ نہیں لے گیا۔
اس واقعے کے خلاف اوزون پارک کے رہائشیوں نے احتجاجی ریلی نکالی اور حکومت سے انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا اور نیویارک کے مسلمانوں میں اس واقعے کے بعد شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں امریکا میں ایک ماہ میں اوسطاً 12.5 مسلم مخالف واقعات سامنے آئے ہیں۔
اخون جی کے ساتھ نماز پڑھنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ نہایت ہی خاموش طبع اور دین دار شخص تھے اور لوگ دور دور سے ان کے خطبات سننے کیلئے آتے تھے۔
تبصرے (2) بند ہیں