• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

آخر اولمپکس میں کرکٹ کیوں نہیں؟

شائع August 12, 2016
فائل فوٹو اے ایف پی
فائل فوٹو اے ایف پی

کرکٹ کی مقبولیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے خاص کر برصغیر میں اسے کھیلوں میں بلند ترین مقام حاصل ہے۔ یہاں گلی محلوں کے ناہموار راستوں پر روایتی و غیر روایتی قوانین سے لے کر پاکستان سپر لیگ اور انڈین پریمیئر لیگ جیسے عالمی شہرت یافتہ لیگز تک یہ کھیل کروڑوں نہیں بلکہ اربوں دلوں کی جان ہے لیکن اس کے باوجود اولمپکس میں شامل نہیں جو حیرت کی بات ہے۔

اولمپکس دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ ہے، جو اس وقت برازیل کے ساحلی شہر ریو ڈی جنیرو میں جاری ہے۔ جہاں دنیا بھر کے کھیل کھیلے جاتے ہیں، سوائے کرکٹ کے۔ جدید اولمپکس کی 120 سالہ تاریخ میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ کرکٹ کو شامل کیا گیا ہو، وہ بھی 1900ء میں جہاں صرف ایک مقابلہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان کھیلا گیا تھا اور اسی کی بنیاد پر تمغے کا فیصلہ ہوا تھا۔

آخر کرکٹ اور اولمپکس میں ایسا 'بیر' کیوں ہے؟ آئیے کچھ وجوہات پر غور کرتے ہیں۔

کرکٹ میں اولمپکس کی عدم شمولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کرکٹ کی مقبولیت دنیا کے مخصوص ممالک تک محدود ہے اور درحقیقت یہ ایک عالمی کھیل نہیں ہے۔ جیسا کہ پورے براعظم شمالی و جنوبی امریکا میں یہ صرف ویسٹ انڈیز میں کھیلا جاتا ہے، یورپ میں صرف انگلینڈ اس کا بڑا مرکز ہے اور ایشیا میں محض برصغیر۔ اس کے علاوہ یہ کسی ملک میں وہ مقبولیت نہیں رکھتا جو فٹ بال کو حاصل ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر کہ یہ چین، امریکا، فرانس، جرمنی اور اٹلی جیسے بڑے ممالک میں کرکٹ دیگر کھیلوں کی نسبت نوجوانون کو زیادہ متاثر نہیں کر سکا۔ اس لیے اربوں مداحوں کے باوجود کرکٹ ایک عالمی کھیل نہیں بن سکا۔

اولمپک 2016 کے مقابلے برازیل کے شہر ریو دی جنیرو میں جاری ہیں۔ فوٹو رائٹرز
اولمپک 2016 کے مقابلے برازیل کے شہر ریو دی جنیرو میں جاری ہیں۔ فوٹو رائٹرز

دوسری اہم وجہ ہے کہ کرکٹ دیگر کھیلوں کے مقابلے میں بہ پیچیدہ کھیل ہے۔ اس کی ضروریات بھی زیادہ ہیں اور اسے مخصوص حالات میں ہی کھیلا جا سکتا ہے، پھر یہ دیگر کھیلوں کے مقابلے میں طویل بھی ہے۔ شاید ہی دنیا کے کسی کھیل میں موسم اور پچ کا مقابلے کے نتیجے پر اتنا اثر پڑتا ہہو جتنا کہ کرکٹ پر۔ بڑے اسٹیڈیم کی ضرورت، عالمی معیار کے مطابق پچ کی تیاری اور دیگر ضروریات کی وجہ سے مالی اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ اولمپکس انتظامیہ کو کرکٹ پر قائل کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ خود بین الاقوامی کرکٹ کونسل بھی نہیں چاہے گی کہ وہ محدود آمدنی کے لیے اتنی بڑی مصیبت مول لے۔

کرکٹ کھیلنے کے دورانیے میں گزشتہ کچھ عرصے میں بہت کمی آئی ہے، خاص طور پر گزشتہ 10 سالوں میں کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ مقبولیت کو پہنچی ہے۔ صرف 20 اوورز کا یہ کھیل کم وقت میں مکمل ہوکر شائقین کو بہترین تفریح فراہم کرتا ہے۔ عموماً ایک ٹی ٹوئنٹی مقابلہ ساڑھے تین سے چار گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے اور یہ مختصر ترین کرکٹ ہے۔ لیکن اب ذرا غور کریں، کون سا دوسرا ایسا کھیل ہے جو اتنی دیر تک کھیلا جاتا ہے؟ پھر بھی ٹی ٹوئنٹی وہ فارمیٹ ہے جس کو لیتے ہوئے ایک سخت قسم کا شیڈول بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ ناک آؤٹ۔

اب ذرا آخر میں ایک بہت ہی اہم مسئلہ جسے ہم کرکٹ کی اولمپکس کی شمولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ شاید آپ کو سن کر حیرت ہو کہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بین الاقوامی کرکٹ کونسل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آئی سی سی کیوں کرکٹ اور اولمپکس کی راہ میں روڑے اٹکائے گا؟ دراصل آئی سی سی اپنے ٹورنامنٹس کی اہمیت پر کوئی آنچ نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس وقت ویسے ہی وہ مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ چاہتا ہے کہ ہر طرز کی کرکٹ میں ایک بڑا ٹورنامنٹ ہو جیسا کہ ون ڈے میں ورلڈ کپ اور ٹی ٹوئنٹی میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی۔ وہ چیمپئنز ٹرافی کو ختم کرکے ٹیسٹ چیمپیئن شپ کرنا چاہتا ہے لیکن اس صورت حال میں وہ اولمپکس جیسے کسی "حریف" کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کی ترجیح ہر سال ایک بڑے ٹورنامنٹ کا انعقاد ہے، ایک سال ورلڈ کپ، اگلے میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، اس سے اگلے میں چیمپئنز ٹرافی اور یوں وہ اس سلسلے کو چلاتے رہنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں اولمپکس جیسے بڑے ایونٹ میں کرکٹ کی شرکت ان ٹورنامنٹس پر ضرب لگا سکتی ہے جس کی آمدنی خالص آئی سی سی کو ملتی ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر ہمیں مستقبل قریب میں کسی اولمپکس میں کرکٹ کی شمولیت کے امکانات نظر نہيں آتے۔ گو کہ 2024ء کی اولمپکس کی میزبانی کے امیدوار اطالوی دارالحکومت روم کی جانب سے کرکٹ کی سفارش کے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ امکانات پیدا ہونے کے باوجود آئی سی سی یہ بڑا قدم اٹھائے گا۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024