کیپٹن ہمایوں خان کا اخلاقی دوراہا
ڈونلڈ ٹرمپ کی کہانی میں ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری خضر خان اور ان کی اہلیہ کا ذکر بہت مشہور ہوا ہے۔
خضر خان 36 سال پہلے پاکستان سے امریکا منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے نہ صرف امریکا کو اپنا وطن بنایا بلکہ ان کے بیٹے ہمایوں خان نے امریکی فوج میں ایک کپتان کی حیثیت سے عراق جنگ میں شرکت بھی کی۔
2004 میں عراق میں ڈیوٹی کے دوران ایک بم دھماکے میں وہ ہلاک ہوگئے۔ انتخابات کے حالیہ شور شرابے میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان کی آمد پر پابندی لگانے کی تجویز دی تو کیپٹن ہمایوں کے والدین ڈیموکریٹ پارٹی کے کنونشن میں اسٹیج پر آئے اور انہوں نے امریکا میں بسنے والے مسلمان شہریوں کی امریکا کے لیے قربانیوں کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز سیاست کو بھی برا بھلا کہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس پر شرمندہ نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے خضر خان کے خاندان اور مسلمانوں پر تنقید جاری رکھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رویے پر ری پبلکن پارٹی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی ہے اور ریٹائرڈ فوجیوں کے بارے میں جذباتی کہلاتی ہے، کے رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں۔ امریکی عوام متفقہ طور پر کیپٹین ہمایوں کو اپنا ہیرو مان رہی ہے۔
پڑھیے: پاکستانی نژاد امریکی فوجی کے والد ٹرمپ پر برس پڑے
لیکن تصویر کا ایک پہلو اور بھی ہے۔
عراق کی جنگ بہت غیر مقبول جنگ رہی ہے۔ صدر بش، ڈک چینی اور برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کو اس جنگ کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی کہانیاں جو اس جنگ کا جواز بنائی گئی تھیں، وقت نے جھوٹ ثابت کی ہیں۔
آج تیرہ سال بعد اگر پیچھے مڑ کر دیکھیں توعمومی رائے یہی ہے کہ آج پوری دنیا بین الاقوامی دہشتگردی کے جس عفریت کے پنجوں میں پھنسی ہوئی ہے، وہ عراق کی جنگ کے نتیجے میں ہی آزاد ہوا ہے۔
براک اوباما نے تو اپنا پہلا انتخاب ہی اس نعرے کے زور پر جیتا ہے کہ انہوں نے عراق جنگ کی مخالفت کی تھی۔ اس جنگ کے ایک ذمہ دار ٹونی بلیئر اپنی ذمہ داری کا اعتراف کر چکے ہیں۔
رون پال جو امریکا کی تیسری اور تھوڑی کم مشہور جماعت لیبریٹیرین پارٹی کی طرف سے انتخاب لڑ چکے ہیں اور امریکا کی عالمی سطح پر کم سے کم مداخلت کے حمایت کار ہیں، اس جنگ کو امریکی آئین سے متصادم گردانتے ہیں۔
زیادہ شدید رائے مسلمانوں کی ہے۔ ایک طبقہ تو ایسا ہے جو صدام حسین کے آمرانہ اور فرقہ وارانہ قتل عام کی بنیاد پر عراق جنگ کو ایک کڑوا گھونٹ سمجھتا ہے لیکن ایک بڑی تعداد عراق جنگ کو مسلمانوں کے خلاف امریکا کا ایک بھیانک اقدام اورکسی بڑے عالمی پلان کا حصہ سمجھتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید اور امریکی رائے عامہ کے اس پاکستانی جوڑے کے حق میں ہونے کے باوجود کچھ مسلمان سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس پر کہہ رہے ہیں کہ کپتان ہمایوں خان ایک ایسی آگ کا ایندھن بنے جس میں انہیں نہیں کودنا چاہیے تھا۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست نے بڑے فخر سے بتایا تھا کہ اس کے دادا جو پہلی جنگ عظیم میں برٹش راج کے سپاہی تھے، نے دعا مانگی تھی کہ عثمانی خلافت کے خلاف کسی جھڑپ میں ان کو نہ لڑنا پڑے۔ خدا نے ان کی دعا قبول کی اور وہ بچ گئے۔
مزید پڑھیے: پاکستانی نژاد امریکی فوجی کے والد کو ٹرمپ کا جواب
لیکن شاید ہزاروں ایسے مسلمان ہوں گے جو لڑے بھی ہوں گے اور انہوں نے مخالف مسلمانوں کی جان بھی لی ہوگی۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں دہلی کو تاراج کرنے والوں میں مسلمان سپاہی بھی تھے؟
ہندوستان اور پاکستان کی جنگ میں کیا ہندوستان کی طرف سے لڑنے والے مسلمان فوجی دل سے اس جنگ میں شریک تھے؟ کیا ایران اور عراق کی جنگ میں دونوں جانب سے مارے جانے والے ایک ہی مذہب اور ایک ہی مسلک کے لوگ دل سے اپنے حکمرانوں کی پالیسی سے اختلاف نہیں کرتے تھے؟
کیا ترک بغاوت میں حصہ لینے والے سارے فوجی اس پلان کا حصہ تھے جو ترکی کے باغی حکمرانوں بنایا۔ کیا بھٹو کا تختہ الٹنے میں ضیاء کے ساتھ بھٹو کے کئی حمایتی افسران بھی مجبوراً شامل نہیں ہوئے؟
اخلاقیات، معاشی اقدار اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے تصادم میں ایک عام آدمی کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے، یہ ایک لمبی بحث ہے۔
کیا وطن سے محبت کا مطلب صرف آپ کے اپنے ملک کے لیے مخصوص ہے؟ کیا کسی بھی ملک کا فوجی اپنے ملک کے لیے لڑتا ہو مارا جائے تو شہید نہیں کہلاتا؟
اگر کیپٹن ہمایوں نے کسی بھی ملک کے فوجی کی طرح اپنے ملک کے مفاد اور اپنے عوام کی حفاظت کا حلف لیا تھا اور وہ ایک اچھی نیت کے ساتھ اپنی وردی پہن کر کھڑے تھے تو ہمیں ان کی اس قربانی کو کسی بھی لحاظ سے کم تر سمجھنا چاہیے؟
کیا کوئی فوجی دورانِ جنگ اپنے کمانداروں کے ہر فیصلے کو اپنے ضمیر کی عدالت پر رکھ سکتا ہے؟
فوج کو چھوڑیں۔ کیا وہ ڈاکٹر جس نے دکھی انسانیت کی خدمت کا درس لیا ہے، کسی ایسے مریض کے علاج سے انکار کر سکتا ہے جو ایک پیشہ ور قاتل ہو؟
جانیے: ناؤمل: غدّار یا محسن سندھ؟
کیا آگ بجھانے والا یہ تخصیص کر سکتا ہے کہ جلنے والا گھر کسی بے گناہ کا ہے یا گناہ گار کا؟ کیا بینک میں کام کرنے والا مینیجر کیا اپنے کلائنٹس سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ جمع کروائے جانے والے روپے حلال کی کمائی ہیں یا حرام کے، کیا وہ ضمیر کی آواز سنے گا یہ ان پیشہ ورانہ اصولوں پر چلے گا جو اسے راز داری سکھاتے ہیں؟
کیا ایک استاد یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا فلاں شاگرد نااہل ہے اور امتحان میں فیل ہوگا، اسے پڑھانے سے انکار کر سکتا ہے؟
کیا اس پیچیدہ یا جدید نظام میں جہاں پیشہ ورانہ، قانونی اور ذاتی نظریات کے جنگل میں راستہ بوجھنا ہو، اسے ان فیصلوں کا ذمہ دار سمجھا جا سکتا ہے جو اس نے نہیں کیے ہوں؟
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ انسان اگر کسی مقصد یا پیشے سے خلوص دل سے وابستہ بھی ہو تو بہت سارے اخلاقی دوراہے ایسے آتے ہیں جہاں دونوں طرف صحیح دلیلیں یا رد دلیلیں موجود ہوتی ہیں۔
ہم میں سے ہر کسی شخص کی زندگی میں ایسے مواقع ضرور آتے ہیں جب ہمیں صرف ایک چیز کو دیکھتے ہوئے عمل کرنا پڑتا ہے، اور وہ ہے پیشہ وارانہ ذمہ داری اور فرائض کی انجام دہی۔
زندگی کے کئی موڑ ایسے ہوتے ہیں جہاں انسان چاہتے ہوئے بھی ان اخلاقی اقدار کے معیار پر اپنے فیصلے نہیں لے سکتا جو معاشرے کے نزدیک درست ہوں۔
کیا کسی بھی شخص، کسی بھی معاشرے کے پاس یہ سرٹیفکیٹ موجود ہے کہ صرف اس کا نظریہ، اس کا وطن، اسی کا پیشہ درست ہے؟ اگر ایسا کوئی سرٹیفیکیٹ موجود نہیں، تو پھر اس شخص کے اعمال کو کس میزان پر پرکھا جائے گا؟
اور سب سے بڑی بات یہ کہ پھر ہمایوں خان پر تنقید کس معیار کے تحت کی جا رہی ہے؟
تبصرے (2) بند ہیں