’چھاپوں کیلئے رینجرز کو چیف سیکریٹری کی اجازت مطلوب ہوگی’
کراچی: سندھ میں رینجرز کے قیام کے دوران نیم فوجی فورس کے خصوصی کردار کی وضاحت کرتے ہوئے صوبائی حکومت کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا، جس کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ رینجرز چیف سیکریٹری کی اجازت کے بغیر کسی بھی صوبائی حکومت کے دفتر پر چھاپہ نہیں مارسکے گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق’’پاکستان رینجرز (سندھ) حکومت سندھ کے چیف سیکریٹری کی جانب سے تحریری اجازت نامہ حاصل کیے بغیر کسی بھی صوبائی حکومت کے دفتر یا کسی دوسرے ادارے پر چھاپہ نہیں مار سکے گی۔’’
سندھ کی وزارت داخلہ کی جانب سے جمعرات کو پاکستان رینجرز (سندھ) کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھا گیا، جس میں انہیں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک سال کے لیے نیم فوجی فورس کے قیام اور 90 روز کے لیے کراچی ڈویژن کو پولیسنگ اختیارات دینے کے حوالے سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے بارے میں بتایا گیا۔
صوبائی وزارت داخلہ کے افسران نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ میں رینجرز کے قیام اور خصوصی اختیارات کی منظور کردہ 2 سمریوں کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکشن موصول ہونے کے بعد ڈی جی رینجرز کو خط بھیجا گیا۔
پڑھیں: رینجرز آپریشن چاروں صوبوں میں ہونا چاہیے، لیگی رہنما
حکومت سندھ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ صرف انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں حکومت کی جانب سے باضابطہ اطلاع دینے پر ہی رینجرز انڈس اور قومی شاہراہوں پر پٹرولنگ کر سکے گی۔
رینجرز پولیس کی معاونت کرے گی اور انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کی جانب سے درخواست کرنے پر مشترکہ کارروائیوں میں حصہ بھی لے سکے گی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ رینجرز کو مختلف جگہوں مثلاً دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں اور کچے کے اُن علاقوں میں بھی تعینات کیا جائے گا، جہاں پولیس اہلکاروں کی تعداد کم ہے اور انہیں معاونت کی ضرورت ہے۔ یہ تعیناتی مختصر مدت کے لیے ہوگی اور غیر معمولی صورتحال میں اسی مقصد کے لیے چیک پوائنٹس بھی قائم کیے جائیں گے۔
سندھ رینجرز ایسے پہاڑی علاقوں میں دستیاب ہوگی جہاں پولیس اہلکار تعینات نہیں۔ ایسے علاقوں کی نشاندہی متعلقہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی باہمی مشاورت کے بعد کی جائے گی۔ رینجرز کو نگرانی کے کام کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے ہدایت دی جائے گی اور ایمرجنسی کی صورتحال میں چیک پوائنٹس بھی قائم کی جائیں گی۔
اس کے ساتھ رینجرز مقامی اور سول انتظامیہ کی معاونت کے لیے حکومت سندھ کی رضامندی کے بعد ضرورت کے تحت مناسب تعداد میں تعیناتی کے لیے دستیاب ہوگی۔ رینجرز پولیس کے مددگار کے طور پر کام کرے گی اور ایسی صورتحال میں جہاں بہتر تربیت یافتہ اہلکاروں کی موجودگی ضروری ہوگی وہاں ان کی چند ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے تیار رہے گی۔
نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے متعین کردہ علاقوں میں چھتوں پر یا پھر ضرورت کے تحت زمین پر رینجرز کی چیک پوسٹ قائم ہوسکیں گی۔
پڑھیں: رینجرز کی رپورٹ:"پیپلز پارٹی کو کوئی پریشانی نہیں"
نوٹیفیکشن میں یہ واضح کیا گیا کہ بعض اوقات امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے حوالے سے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کی اطلاع پر رینجرز اہلکار سڑکوں پر گشت کریں گے۔
رینجرز حکومت کی اطلاع پر منتخب شدہ انتہائی اہم تنصیبات کی حفاظت کرے گی، ان میں بڑے ہسپتال، تعلیمی ادارے اور بیرون ملک تنصیبات یا قونصل خانے شامل ہیں۔ رینجرز کراچی یا سندھ میں کہیں بھی بڑی سطح کے مذہبی یا دیگر بڑے پروگرامز، جن میں بڑے عوامی جلسے، غیر ملکی وفود، صدور یا وزرائے اعظم کے حفاظتی امور یا حفاظتی حصار میں پولیس کی معاونت کرے گی۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ رینجرز کا اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک ہوگا اور قانون کے تحت اور اس کے ساتھ ساتھ عارضی نوٹیفکیشن پر یہ فورس انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز کرے گی۔ اس دوران حکومت سندھ وقتاً فوقتاً موجودہ صورتحال کا جائزہ لے گی اور عارضی نوٹیفکیشن میں شامل ضوابط میں تبدیلی بھی کر سکے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ صوبائی وزارت داخلہ نے نوٹیفیکشن میں بتایا گیا کہ کراچی ڈویژن میں رینجرز کے خصوصی اختیارات میں مزید 90 دن کی توسیع 20 جولائی سے کی گئی، جب رینجرز کو حاصل خصوصی اختیارات کی گزشتہ مدت ختم ہو چکی تھی۔
رینجرز کی کارکردگی
دوسری جانب رینجرز ترجمان نے بتایا کہ وہ کراچی کے علاوہ سندھ میں 2013 سے آپریشن میں پولیس کی مدد کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف جرائم میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
پڑھیں: تاجر اتحاد کا رینجرز اختیارات میں توسیع کا مطالبہ
رینجرز ترجمان نے کہا کہ، ’’سندھ رینجرز آرٹیکل 147 کے تحت حاصل اختیارات کے ساتھ 5 ستمبر 2013 سے وقتاً فوقتاً جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن میں پولیس کی معاونت کر رہی ہے۔‘‘ ان آپریشنز کے دوران 533 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا جس سے امن و امان کی صورتحال کو بہترکرنے اور جرائم میں نمایاں کمی لانے میں مدد ملی ہے۔
ترجمان کی جانب سے جرائم میں کمی کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ قتل کی وارداتوں میں 44 فیصد، ڈکیتی کی وارداتوں میں 53 فیصد، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں 77 فیصد اور راہزنی میں 27 فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے۔
یہ خبر 5 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی