'جہاد سے متعلق آیات امریکی ایماء پر نصاب میں شامل کی گئیں'
اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نصاب میں جہاد سے متعلق قرآنی آیات امریکیوں کو مطمئن کرنے کے لیے شامل کی گئی تھیں، جو کمیونزم کے خلاف جنگ کے لیے بھرتیاں کرنا چاہتے تھے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے 3 روزہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا شیرانی نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ریاست کے خلاف جنگ کو 'انتشار پھیلانے' کی ایک کوشش قرار دیا اور کہا کہ کسی کی خواہش کو عوام پر مسلط کرنے کو جہاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے مولانا شیرانی قومی اسمبلی کے ایک رکن بھی ہیں۔
مولانا شیرانی نے اسکولوں کے نصاب میں قرآن کریم کی تعلیمات کو شامل کرنے کی تجویز کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ یہ ضروری ہے کہ طلبا کو قرآن کریم میں بتائی گئی اخلاقیات اور سماجی روایات کی تعلیم دی جائے۔
تاہم جب مولانا سے نصاب میں سے جہاد سے متعلق قرآنی آیات نکالنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی نصاب میں ان آیات کو صرف اس وجہ سے شامل کیاگیا تھا کیونکہ امریکا کو کرائے کی افرادی قوت کی ضرورت تھی'۔
ان کا کہنا تھا، 'آپ پرانی کتابوں کو دیکھیں، حتیٰ کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں بھی اخلاقیات، سوشل سائنسز اور ثقافی و اسلامی روایات کے حوالے سے کہانیاں بتائی جاتی تھیں'۔
تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں مولانا شیرانی نے ایک قرآنی آیت کی تلاوت کی، جس کا ترجمہ ہے، 'دین میں کوئی جبر نہیں'۔
اگرچہ انھوں نے ٹی ٹی پی کے لیے خاص طور پر 'دہشت گرد' کی اصطلاح استعمال نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے راستے کا انتخاب خود کریں، ساتھ ہی انھوں نے وضاحت کی کہ ' اللہ رب العزت نے لوگوں کو اس حوالے سے سمجھ بوجھ عطا کی ہے کہ وہ اس بات کو جانیں کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں، اس کے نتائج کیا ہیں'۔
مزید پڑھیں:قرآن کو نصاب میں شامل کرنے کی تجویز مسترد
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا شیرانی سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف بھی خودکش حملوں سمیت دیگر دہشت گردی کی کارروائیاں ہوچکی ہیں، جن کی ذمہ داری بعدازاں ٹی ٹی پی کی جانب سے قبول کی گئی۔
جہاد کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا شیرانی نے کہا کہ اس بات کے 2 پہلو ہیں، ایک عقیدے سے متعلق اور دوسرا مادی حوالے سے، تاہم دونوں پہلوؤں میں 'تجفظ' کے تصور کو سامنے رکھا گیا ہے۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ 'اگر میں اپنے عیقدے کی حفاظت کرنا چاہتا ہوں تو برائی کے خلاف ایک جہاد یہ ہوگا کہ میں اس برائی کے راستے پر نہ چلوں جبکہ جہاد کے مادی پہلو کا مطلب سخت محنت ہے'۔
اس کی مثال دیتے ہوئے مولانا شیرانی نے کہا کہ 'بالکل اُسی طرح کہ جیسے کوئی سخت محنت کے ذریعے غربت سے جنگ کرسکتا ہے، نہ کہ دوسروں سے پیسے یا زمین چھین کر، لیکن اگر کوئی اپنی خواہشات کو زور زبردستی کے ذریعے دوسروں پر مسلط کرنا چاہے گا، تو یہ جہاد نہیں بلکہ 'فساد' (انتشار) ہے، جو درست نہیں'۔
جب ان سے جہاد سے متعلق قرآنی آیات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ 'قرآن کریم اور اسلام نے زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہ فراہم کیا ہے، جسے ٹکڑوں میں نہیں سمجھا جاسکتا'۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ جہاد سے متعلق زیادہ تر آیات مدینہ منورہ میں اتریں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی اسلامی ریاست قائم کی تھی، جن کا مقصد مسلمانوں کی اس حوالے سے رہنمائی کرنا تھا کہ حملہ آوروں سے اپنی ریاست کو کیسے محفوظ رکھنا ہے، لیکن اس میں بھی انتشار پھیلانے کی بات نہیں کی گئی تھی۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مدینے کی اسلامی ریاست کی بنیاد تشدد پر نہیں رکھی گئی تھی۔
مولانا شیرانی نے دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے اسکولوں میں دیگر مذاہب کی کتابیں پڑھانے کے خیال کی بھی حمایت کی اور ساتھ ہی شکوہ کیا کہ پادریوں اور پنڈتوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تاکہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جاسکتا۔
یہ خبر 5 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں