سہیل خان کرکٹر ہے، ماہر لسانیات نہیں
ایجبسٹن ٹیسٹ کے پہلے روز 5 وکٹیں لینے والے پاکستانی باؤلر سہیل خان سے بعد ازاں پریس کانفرنس کے دوران ایک پاکستانی صحافی نے کہا کہ وہ انٹرنیشنل میڈیا سے بات چیت کرنے کے لیے انگریزی سیکھنے کے لیے وقت کیوں نہیں نکالتے
کوئی فرد اس وقت کیا کرے جب وہ کسی ایسی زبان میں بات چیت کرنے میں مشکل محسوس کرے جو اس کی نہ ہو؟
ہم پاکستانیوں کے لیے کئی بار یہ بات عزت کا سوال بن جاتی ہے اگر کوئی شخص انگلش میں روانی سے بات نہ کرسکے کیونکہ اردو ہماری مادری زبان ہے۔
سہیل خان بلاشبہ ایجسٹن ٹیسٹ کے پہلے دن پاکستان کے ہیرو تھے، جنھوں نے لگ بھگ پانچ سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کے بعد پانچ وکٹیں لیں۔
مالاکنڈ میں پیدا ہونے والے 32 سالہ باﺅلر کراچی میں پلے بڑھے، انہوں نے میڈیا کانفرنس کے آخر میں ایک پاکستانی صحافی سے اس سوال کی توقع نہیں کی تھی کہ وہ کب انگلش سیکھنے کے لیے وقت نکالیں گے۔
لگ بھگ 14 منٹ کی بریفننگ میں پاکستانی ٹیم کے باﺅلنگ کوچ مشتاق احمد نے سہیل خان کے انگلش مترجم کا کردار ادا کیا، جو پاکستانی اور برطانوی صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں اردو میں دے رہے تھے۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ آخر اس پاکستانی صحافی نے متعدد انگلش صحافیوں کے سامنے یہ حساس سوال کرنے کی ہمت کیسے کی؟
درحقیقت اس نے اس نے اس طرح سہیل خان کی اس انداز سے تذلیل کرنے کی کوشش کی، ایک ایسے فرد کی جس کا اولین کام کرکٹ کھیلنا ہے، انگلش بولنے کے لیے فکرمند ہونا نہیں۔
مگر سہیل خان کے کریڈٹ میں یہ بات جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے ہم وطن کی جانب سے دو حصوں میں پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا اور بس یہ کہا کہ یہ ان کا بین الاقوامی میڈیا سے بات چیت کا پہلا موقع ہے اور پھر صحافی کو آگاہ کیا کہ وہ انگلش میں بھی بات کرسکتے ہیں۔
کرکٹ ہی پاکستان کا واحد کھیل ہے جو ملک کو متحد کرسکتا ہے۔
کوئی بھی شخص جیسے سہیل خان ابھی ملک بھر میں مقبول نہیں ہوئے اور یقیناً ایک ایسے ہیرو بننے سے کافی دور ہیں جس سے لوگوں کو عقیدت ہو۔
کھیل کی دنیا کے ہمارے سپر اسٹارز میں سے چند ایک ہی رواں انگلش میں بات کرسکتے ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ خوش قسمت ہوتے ہیں اور انہیں عالمی سطح پر کرکٹ میں مہارت کے ساتھ ساتھ بہترین تدریس کے ساتھ شخصیت کو بہتر بنانے کا موقع ملتا ہے۔
پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان اے ایچ کاردار، جاوید برکی اور ان کے کزنز عمران خان اور ماجد خان نے کیمبرج یا آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔
پاکستان ان کرکٹرز کی ایک نمایاں مثال ہیں جو اسی کی دہائی کی ابتداءمیں بین الاقوامی کیرئیر کے آغاز پر انگلش کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے تھے ، آج وہ کرکٹ کے جانے پہچانے ماہر ہیں جبکہ متعدد چینیلز پر انگلش کمینٹری بھی کرتے ہیں۔
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس ملک میں کھیلنا والا ہر کھلاڑی جو بین الاقوامی سطح پر کھیل چکا ہو، میڈیا سے انگلش میں بات چیت کرسکتا ہو۔
ایسے کھلاڑیوں کی متعدد مثالیں ہیں جو بہت کم انگلش بولتے تھے اور اکثر اپنی مادری زبان میں بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔
فٹبال لیجنڈز جیسے پیلے، ڈیاگو میرا ڈونا، لیونل میسی، زین الدین زیدان، کرسٹیانو رونالڈو، تھومس مولر، نیمار، گیانلویجی بفن اور انتونی گریزمان اس کی چند مثالیں ہیں۔ یہ سب ہمیشہ میڈیا کانفرنس کے دوران اپنی مادری زبانوں میں بات کرتے تھے۔
دنیا کے ہر شعبے میں بہتر دفتری ماحول کے لیے ایک ضابطہ اخلاق ہے اور ہر وقت نظم و ضبط کو برقرار رکھنا یقینی بنایا جاتا ہے، ایسے افراد جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں عام طور پر تعزیری کارروائی کا سامنا ہوتا ہے۔
اس معاملے میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اوپر ایک مخصوص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
پی سی بی ایک اتھارٹی ہے جو نہ صرف کرکٹ کو کنٹرول کرنے والا ادارہ ہے بلکہ دیگر شعبوں کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔
پاکستان سے صحافی سفر کرکے پی سی بی کی جانب سے جاری ایکریڈیشن پر میچ کور کرنے کے لیے جاتے ہیں، اس کے بعد ہی جس ملک میں وہ جاتے ہیں اس کی جانب سے باضابطہ طو رپر اجازت دی جاتی ہے۔
گزرے برسوں میں کرکٹ کی دنیا کے تنازعات میں پاکستان کا بڑا حصہ رہا ہے۔
انگلینڈ میں جاری حالیہ سیریز کے دوران اب تک کوئی بھی غیر ضروری واقعہ پیش نہیں آیا، ماسوائے ایک خود ساختہ صحافی کے افسوسناک رویے کے۔
یہ پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس طرح کے مضحکہ خیز سوالات کو ہر قیمت پر روکے اور اس صحافی کے خلاف سخت اقدام کرتے ہوئے ایک مثال قائم کرے جس نے ایک غیر ضروری تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی۔
خالد ایچ خان، ڈان اخبار کے سینئر رپورٹر ہیں۔
تبصرے (7) بند ہیں