افغان طالبان کے وفد کے دورہ چین کا انکشاف
پشاور: افغان طالبان کے ایک وفد کے دورہ چین کا انکشاف ہوا ہے اور اس دوران طالبان کے وفد نے چینی حکام سے افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔
طالبان ذرائع نے بتایا کہ 18سے 22 جولائی تک قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ عباس اسٹانکزئی کی قیادت میں طالبان وفد نے چین کا دورہ کیا جس کی دعوت چینی حکومت نے دی تھی۔
طالبان کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہمارے دنیا کے مختلف ممالک سے اچھے تعلقات ہیں اور چین بھی ان میں سے ایک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قطر میں طالبان کا دفتر دوبارہ کھولنے پر اتفاق
انہوں نے بتایا کہ ہم نے چینی حکام کو غیر ملکی افواج کے قبضے اور افغان عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم سے آگاہ کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ چینی قیادت ان مسائل کو عالمی سطح پر اٹھانے میں ہماری مدد کرے اور قابض فوجیوں سے آزادی حاصل کرنے میں ہماری معاونت کرے۔
افغان طالبان کے وفد کے دورہ چین کی تصدیق طالبان کے دیگر سینئر ارکان نے بھی کی ہے تاہم کسی نے بھی اپنا نام ظاہر نہیں کیا کیوں کہ انہیں قطر کے سیاسی دفتر کے معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں۔
اس حوالے سے چینی وزارت خارجہ کا بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں امن مذاکرات کی بحالی کے لئے چار فریقی اجلاس پر اتفاق ہوا تھا جس میں پاکستان، افغانستان اور امریکا کے علاوہ چین بھی شامل تھا.
طالبان کی پیش قدمیاں
افغان حکام کے مطابق شدید لڑائی کے بعد افغانستان کے صوبہ ہلمند کا اہم ضلع طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے اور جھڑپوں میں 17 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
ہلمند کے صوبائی کونسل کے ڈائریکٹر کریم اٹل نے بتایا کہ جمعے کی شب طالبان کے جنگجوئوں نے متعدد پولیس چیک پوسٹس پر حملے کیے اور کاناشین ضلعے پر قبضہ کرلیا۔
قبل ازیں ان کے نائب عبدالمجید اخونزادہ نے کہا تھا کہ کاناشین ضلع طالبان کے قبضے میں جاچکا ہے۔
یہ ضلع انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستانی سرحد سے متصل ہے اور افیون کی کاشت کیلئے مشہور ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں امن کیلئے چار فریقی اجلاس
اخونزادہ کا کہنا ہے کہ کاناشین ضلعے پر کنٹرول حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب طالبان صوبہ ہلمند کے 60 فیصد علاقے پر قابض ہوچکے ہیں جبکہ مرجاہ، سنگین، گرمسر اور دشو اضلاع پہلے ہی طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان سے جھڑپ میں ڈسٹرکٹ پولیس چیف اور نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی سے مقابی نائب سربراہ بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی حتمی تعداد کا پتہ چلانا مشکل ہے کیوں کہ لڑائی وقفے وقفے سے جاری ہے اور لاشیں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔
کریم اٹل کا کہنا ہے کہ کاناشین ضلع کو طالبان سے واپس لینے کیلئے فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں لیکن یہ کام انتہائی مشکل ہوگا کیوں کہ طالبان نے تمام چیک پوائنٹس کو تباہ کردیا ہے۔
یہ خبر 31جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی