اردو میڈیم والدین کے انگلش میڈیم بچے
گذشتہ دنوں ثانوی تعلیمی بورڈ لاہور نے میٹرک کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کا اعلان کیا، جس میں آرٹس مضامین میں تیسری پوزیشن عظمیٰ وارث نے حاصل کی۔
اس خبر کو تقریباً تمام چینلز نے بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا اور اس کی وجہ تھی کہ تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی طالبہ ایک محنت کش کی بیٹی ہے۔
نیوز چینلز کی بریکنگ نیوز دیکھ کر یہ لگا کہ جیسے پوزیشنز صرف امیروں کے بچے حاصل کرسکتے ہیں، لہٰذا محنت کشوں کے بچوں کا پوزیشن حاصل کرنا اتنی ہی انوکھی بات ہے کہ اس پر بریکنگ نیوز چلائی جائے، حالانکہ حقائق کو مدِنظر رکھا جائے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔
پڑھیے: گرتا معیارِ تعلیم: کیا کسی کو فکر ہے؟
ٹی وی چینلز پر چلتا بریکنگ منجن دیکھ کر میں بھی سوچنے لگا کہ کیا کبھی میری بیٹی بھی پوزیشن حاصل کرے گی؟ میں نے اپنی چار سالہ بیٹی کو لاہور کے ایک بہترین نجی انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروا رکھا ہے اور اس نے گرمی کی چھٹیوں سے پہلے اپنی پری نرسری مکمل کی ہے۔
بیٹی کی پری نرسری مکمل ہونے تک میں ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد پیسہ فیسوں کی مد میں (موسمی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے خرچوں کے علاوہ) ادا کر چکا ہوں۔ اتنی رقم میری پہلی کلاس سے لے کر گریجوئیشن مکمل ہونے تک بھی نہیں لگی تھی جتنی میری بیٹی کی پری نرسری کی فیسوں میں لگ گئی ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ میری کنپٹی پر کسی نے پستول رکھ کر مجھے مجبور کیا تھا کہ میں بیٹی کا داخلہ نجی انگلش میڈیم اسکول میں کرواؤں۔ میں نے خود داخلہ اور ماہانہ فیس جانتے ہوئے ہوش و حواس میں اپنی بیٹی کا داخلہ اس نجی اسکول میں کروایا تھا۔
ایسا کرنے کی وجہ بہت سادہ تھی۔ میں بھی دیگر والدین کی طرح چاہتا تھا کہ میری بیٹی بھی فرفر انگریزی بولے اور 'کانفیڈنس' کے ساتھ بات چیت کرے۔ ہم پاکستانی والدین میں یہ احساس بہت عام ہے۔
مگر ہوا کیا؟
پہلے سال میں ہی جب میں اسے اے بی سی پڑھانے لگا تو بچی نے مجھے ٹوک دیا کہ بابا آپ غلط پڑھا رہے ہیں۔
پتہ چلا کہ آج کے دور میں اے کو اے نہیں بلکہ "آ" کہتے ہیں۔ ساری عمر ایس کو ایس پڑھتا رہا اور اب پتا چلا کہ یہ "سا" ہے، ایس نہیں۔ اپنی نالائقی کی وجہ جاننے پر آشکار ہوا کہ نجی اسکول والے اے بی سی نہیں بلکہ "فونیٹکس" سکھاتے ہیں اور وہ بھی کسی ترتیب کے بغیر۔
پڑھیے: تعلیم کا فن
پہلے سال میں پری نرسری کا بے ڈھنگا نصاب پڑھنے اور اتنا پیسہ لگانے کے بعد میری بیٹی کو چند فونیٹکس آتے ہیں، چند رنگوں اور جانوروں کی پہچان ہے اور بات چیت کرنے میں 'کونفیڈنٹ' ہے۔ گڈ مارننگ اور گڈ ایوننگ میں فرق پتہ ہے اور پنسل کے استعمال سے ٹریسنگ کر لیتی ہے۔ کمپیوٹر کا ماؤس اور آئی پیڈ بھی استعمال کر لیتی ہے۔
پہلا سال مکمل ہونے اور فیسوں کا آڈٹ کرنے پر میں سوچنے لگا کہ جس اسکول سے پڑھ کر میں اس قابل ہوا ہوں کہ اتنی فیس دے سکتا ہوں اور اپنے بچوں کو اچھی زندگی دے رہا ہوں، تو اُس اسکول یا اُس جیسے دیگر اسکولوں میں کیا خرابی ہے؟
اس کے علاوہ اگر ایک محنت کش درزن کی بیٹی محنت کر کے تیسری پوزیشن حاصل کرسکتی ہے تو پھر ایسے مہنگے نجی انگلش میڈیم اسکولوں میں بچوں کو پڑھانے کا فائدہ؟
علاوہ ازیں اگر کم فیسوں والے اسکولوں اور کالجوں کی تعلیم اتنی ہی بے اثر اور غیرفائدہ مند ہے تو پھر وہاں سے پڑھ کر نوکری کرتے ہوئے میں اور مجھ جیسے کتنے ہی لوگ کیسے اتنا کما رہے ہیں؟
ہماری اور ہم سے زیادہ عمر کے تقریباً تمام ہی بیوروکریٹس، چوٹی کے قانون دان، کاروباری شخصیات، ڈاکٹر، انجینیئر، سیکریٹریز، ججز وغیرہ سرکاری اسکولوں کے پڑھے ہوئے ہیں، دیہاتی پس منظر رکھتے ہیں اور اس کے باوجود ملک چلانے والے افراد میں شامل ہیں۔
اس زمانے میں پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا نہ رواج ہوتا تھا اور نہ ہی یہ سب کی دسترس میں ہوتی تھی، اور چونکہ زیادہ تر آبادی دیہاتوں یا مضافات میں رہتی تھی، اس لیے وہ اپنے بچوں کو ویسے ہی اسکولوں میں داخلے دلواتے تھے۔ پھر بھی ایک پوری نسل ان اسکولوں سے پڑھ کر اس مقام تک پہنچی ہے، تو کیا آج یہ کام نہیں ہو سکتا؟
پھر خیال آتا ہے کہ بدلتے حالات اور ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے اس دور کے بچوں کے لیے ایسی تعلیم لازمی ہے، جس میں انہیں پڑھائی کے علاوہ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی سکھایا جائے، بشمول گھروں میں گفتگو کے آداب بھی۔
ہمارا وقت اور تھا جب ہم گھر کے سودے میں سے پیسے بچا کر ویڈیو گیمز کے ٹوکن خریدتے تھے۔ اب بچے ہمارے زمانے کے معصوم بچوں کی طرح پیسے نہیں مانگتے بلکہ سیدھا اپنی مطلوبہ چیز کی فرمائش کرتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں والدین پانچ یا چھ سال کی عمر میں بچوں کو اسکولوں میں داخل کرواتے تھے اور اسکول میں داخلے سے پہلے بنیادی تعلیم و تربیت گھر میں ہی کی جاتی تھی۔
پڑھیے: سرکاری اسکولوں کے بغیر تعلیم کیسے 'عام' ہوگی؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ والدین کا اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ وہ پانچ یا چھ سال تک کے بچوں کو گھروں میں برداشت کریں۔ والدین کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں کہ وہ بچوں کی تربیت گھروں میں کریں اور یہی وجہ ہے کہ والدین بھاری فیسوں کے بدلے بچوں کی تعلیم و تربیت مہنگے نجی انگلش میڈیم اسکولوں میں کرواتے ہیں۔
اس کے علاوہ آج کل یہ چیزیں بچوں میں احساسِ کمتری کا بھی سبب بنتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی بچہ کسی چھوٹے یا کم فیس والے اسکول میں پڑھتا ہو اور اس کے کزنز یا محلے کے دوسرے بچے مہنگے اسکول میں جاتے ہوں، آئی پیڈ اور پلے اسٹیشن کے مالک ہوں، تو اس بچے کی خود اعتمادی کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے، جبکہ والدین کو بھی یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ شاید وہ اپنے بچوں کو وہ کچھ نہیں دے پا رہے جو دینا چاہیے۔
ان مہنگے اسکولوں کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اگر بچہ ایک بار اسکول جانا شروع کردے تو وہ پھر اسکول شوق سے جاتا ہے۔ نہ کہ ہمارے اسکولوں کی طرح جہاں جاتے وقت ڈر سا لگتا تھا۔ اسکول جاتے وقت بچے ایسے خوش اور جذباتی ہوتے ہیں کہ لگتا ہے وہ اسکول نہیں بلکہ نانی کے گھر جارہے ہوں۔
بہرحال، پڑھائی کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ ملک بھر میں ہر سال محنت کشوں اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں بچیوں کی تعلیمی اور تخلیقی میدان میں زبردست کامیابیوں سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ اسکول کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا، یہ انسان کا ذہن اور اس کی لگن ہوتی ہے جو اسے اونچا مقام دلواتی ہے۔
فرق صرف نصاب کے علاوہ دیگر غیر نصابی سرگرمیوں اور طریقہ تدریس کا ہے جنہیں سرکاری اسکولوں میں بھی متعارف کروا کر عظمیٰ جیسے طلبہ کو بھی عالمی معیار کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔
کاش کہ ہم سب یہ بات سمجھ جائیں اور اسکولوں کی فیسوں کو 'اسٹیٹس' کا مسئلہ بنانے کے بجائے اپنے بچوں کی بہتر اخلاقی تربیت پر توجہ دیں، تعلیم کیا ہر میدان میں کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
تبصرے (6) بند ہیں