• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

افغانستان: داعش کے خودکش دھماکے میں ہلاکتیں 80 ہوگئیں

شائع July 23, 2016
کابل: دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے—فوٹو/ اے ایف پی
کابل: دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے—فوٹو/ اے ایف پی

کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خودکش دھماکے میں 80 افراد ہلاک جبکہ231 افراد زخمی ہو گئے، جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق ہزارہ برادری کی جانب سے کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے میں خود کش حملہ کیا گیا، افغان وزارت صحت نے 80 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق کابل میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد اربوں ڈالر کے پاور پروجیکٹ کے مجوزہ روٹ کے خلاف مظاہرے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی۔

افغان خبر رساں ادارے خامہ پریس کے مطابق گزشتہ روز ہی افغان نیشنل آرمی کے کمانڈوز نے داعش کے گڑھ سمجھے جانے والے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں آپریشن شروع کیا تھا۔

طلوع نیوز کے مطابق افغان طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کابل میں پولیس کے قافلے پرخودکش حملہ،27 ہلاک

افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے، افغان صدارتی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا حق ہے اور اس مظاہرے کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ سیکیورٹی انتظامات کے باوجود موقع پرست عناصر مظاہرین کے آڑ میں داخل ہوگئے اور خود کو دھماکے سے اڑالیا۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے بھی کابل میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے افغان حکومت کی مدد کیلئے ہمیشہ تیار ہیں، دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔

افغان وزارت صحت کے ترجمان محمد اسماعیل کا کہنا تھا کہ زخمیوں اور لاشوں کو قریبی استقلال ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ہسپتالوں میں خون کی شدید کمی ہوگئی ہے اور وزارت صحت نے عوام سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ خون کا عطیہ دیں۔

افغان حکومت کے خلاف احتجاج میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے—فوٹو/ اے ایف پی
افغان حکومت کے خلاف احتجاج میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے—فوٹو/ اے ایف پی

عینی شاہدین نے بتایا کہ گزشتہ چار گھنٹے سے ہزارہ برادری کا احتجاج جاری تھا جس کے بعد مظاہرین احتجاجی کیمپ لگانے کی تیاریاں کررہے تھے ، اسی دوران زور دار دھماکا ہوگیا۔

مزید پڑھیں: کابل: منی بس میں خودکش دھماکا، 14 ہلاک

واضح رہے کہ بجلی کے مذکورہ منصوبے کے خلاف ہزارہ برادری کا یہ دوسرا احتجاج ہے اور اس میں پرتشدد واقعات کا خدشہ پہلے ہی ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا حمایت یافتہ ہے اور اس میں ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں.

اس منصوبے کا ابتدائی روٹ بامیان صوبے سے ہوکر گزررہا تھا جہاں ہزارہ برادری کی اکثریت ہے تاہم 2013 میں اس وقت کی حکومت نے اس کا راستہ تبدیل کردیا تھا.

مظاہرے میں شریک رہنمائوں نے روٹ کی تبدیلی کو ہزارہ برادری کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا.

مظاہرے میں شامل افراد افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور امتیازی سلوک مردہ باد اور تمام افغان باشندوں سے یکساں سلوک کا مطالبہ کررہے تھے.

افغان خبررساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق مقامی وقت دوپہر ڈھائی بجے کے قریب دو دھماکے سنے گئے اور مظاہرے میں تین خود کش بمباروں کی موجودگی کی اطلاع تھی.

رپورٹ میں پولیس کے حوالے سے کہا گیا کہ ایک خود کش بمبار دھماکا کرنے میں کامیاب رہا جبکہ دوسرا بم خراب نکلا جبکہ تیسرے خودکش بمبار کو دھماکا کرنے سے پہلے ہی ہلاک کردیا گیا.

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایک خود کش بمبار برقع پہنا ہوا تھا، زخمی ہونے والوں میں تین پولیس چیفس بھی شامل ہیں.

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں کابل میں افغان پولیس کے قافلے پر خودکش حملے کے نتیجے میں 27 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے جبکہ 20 جون کو بھی کابل میں نیپالی سیکیورٹی گارڈز کی بس میں ہونے والے دھماکے کے نیتجے میں 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024