'مری کی اسکول ٹیچر نے خودکشی نہیں کی، قتل کیا گیا'
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے 2 رکنی تحقیقاتی مشن نے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں اضافے کا الزام ناقص تفتیش پر عائد کردیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر اور کامران مرتضیٰ پر مشتمل مشن کا کہنا تھا کہ ناقص تفتیش خواتین کے خلاف جرائم اور غیرت کے نام پر قتل کی بنیادی وجہ ہے۔
یاد رہے کہ ایس سی بی اے کے صدر بیرسٹر علی ظفر نے مری کی 19 سالہ اسکول ٹیچر ماریہ صداقت کی ہلاکت کے بعد یہ مشن تشکیل دیا تھا، جنھیں رشتے سے انکار کے بعد زندہ جلادیا گیا تھا، بعدازاں ماریہ گذشتہ ماہ یکم جون کو اسلام آباد میں واقع پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں دوران علاج دم توڑ گئی تھیں۔
مزید پڑھیں:مری میں اسکول ٹیچر کو آگ لگا دی گئی
اس مشن کا مقصد اس بات کا پتہ چلانا تھا کہ اس جرم کے حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی گئیں یا نہیں، جبکہ اس مشن نے اس حوالے سے بھی تحقیق کرنی تھی کہ مقتولہ کے خاندان پر کتنا دباؤ ڈالا گیا اور تفتیش کے دوران بیرونی عوامل نے کتنا اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
پولیس کی تحقیقات کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ ماریہ کی ہلاکت قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی، جس کے بعد کیس کے مرکزی ملزمان کو بے قصور قرار دے دیا گیا اور انھیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
گذشتہ روز یعنی 20 جولائی کو علی ظفر، عاصمہ جہانگیر اور کامران مصطفیٰ نے پولیس رپورٹ میں کیے گئے اس دعوے کو کہ ماریہ نے خودکشی کی تھی، ایک طرف رکھ دیا اور کہا کہ اسکول ٹیچر کو قتل کیا گیا، کیونکہ ان کے ہاتھوں، پیروں اور چہرے کے علاوہ پورا جسم جلا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:مری میں زندہ جلائی گئی اسکول ٹیچر دم توڑ گئیں
سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشن کا کہنا تھا کہ انھوں نے مقامی حکومت کے چیئرمین اعجاز عباسی سے ملاقات کی، جو مقتولہ کے پڑوسی بھی ہیں۔
مشن کے ارکان کے مطابق اعجاز عباسی نے بتایا کہ خود سوزی کی کوشش میں انسان کے جسم کا جو حصہ سب سے پہلے جلتا ہے، وہ ہاتھ ہوتے ہیں، جبکہ ماریہ کے ہاتھ، پاؤں اور چہرہ سلامت تھا، لہذا مقتولہ کا یہ بیان درست ہے کہ انھیں 4 افراد نے آگ لگا کر کھائی میں دھکا دیا تھا۔
مشن کی تحقیقات کے مطابق آگ لگائے جانے کے بعد 40 گھنٹوں تک مقتولہ زندہ تھیں اور انھوں نے ماسٹر شوکت اور ان کے 4 ساتھیوں پر خود کو آگ لگانے کا الزام عائد کیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر کے مطابق، 'ہم نے تجویز دی ہے کہ ایس سی بی اے کے صدر مقتولہ کے اہلخانہ کی جانب سے ایک قابل وکیل کو نامزد کریں اور اس کیس کی آخر تک پیروی کی جائے'۔
مزید پڑھیں:مری:اسکول ٹیچر کو آگ لگانے کا واقعہ خودکشی قرار
مشن کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ خواتین کی جانب سے خودکشی کی کوششوں کے طریقے الگ ہوتے ہیں، کوئی بھی خود کو آگ نہیں لگاتا اور یہ کہ خودکشی کے اور بھی بہت سے آسان طریقے موجود ہیں۔
مشن نے مقتولہ اور ان کے اہلخانہ کی کردار کشی کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم سے متعلق کہا کہ باوثوق رپورٹس کے مطابق مقتولہ کے خاندان کو ڈرایا دھمکایا گیا اور خاموش رہنے کی صورت میں انھیں پیسے دینے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
عاصمہ جہانگیر کے مطابق ٹحقیقانی مشن کو اس سلسلے میں ڈاکٹروں کے کردار پر بھی افسوس ہے، جنھوں نے مقتولہ کے دعووں کی تصدیق کے لیے پولیس کو کوئی بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔
یہ خبر 21 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی