آزاد کشمیر انتخابات: پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی غلطیاں
پاکستان میں ایسی منفرد جمہوریت ہے، جس میں جو سیاسی جماعت ایک بار عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لے، وہ جماعت اگلے عام انتخابات تک ہونے والے ہر قسم کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
چاہے وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوں، گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے ہوں، یا پھر کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات۔ حتٰی کہ آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں بھی وہی جماعت اکثریت حاصل کرتی ہے جس کی حکومت اسلام آباد میں ہوتی ہے، جس کے بعد مذکورہ اکثریتی جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت اور تنقید کے باوجود عوام حکومتی پالیسیوں سے خوش ہیں، جس کا ثبوت انتخابات میں حکومتی جماعت کو ملنے والی اکثریت ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات کے علاوہ جس صوبے میں جس سیاسی جماعت کی حکومت ہوتی ہے، اسی جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں بھی اکثریت حاصل ہوتی ہے۔
یہ تسلسل ہم نے حال ہی میں اس وقت بھی دیکھا جب سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اکثریت پیپلز پارٹی کو ملی، پاکستان تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا میں، جبکہ پنجاب اور بلوچستان میں نواز لیگ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ کنٹونمنٹ بورڈز میں 17 سالوں بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی یہی صورتحال رہی۔
تاہم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں حکومت وہی سیاسی جماعت بناتی ہے جس کی حکومت وفاق میں ہوتی ہے، جیسا کہ 2015 میں ہونے والے گلگت بلتستان کے انتخابات میں وفاق میں حکومت کرنے والی پاکستان مسلم لیگ ن نے 24 جنرل نشستوں میں سے 15 حاصل کرکے حکومت بنائی۔
اس کے علاوہ 2011 میں ہونے والے آزاد کشمیر انتخابات میں وفاقی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہونے کی وجہ سے مظفر آباد میں بھی حکومت پیپلز پارٹی نے بنائی۔
اب جبکہ آزاد کشمیر میں دوبارہ سے انتخابات ہو رہے ہیں تو ماضی کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیاب رہے گی۔
ملک کے دیگر حصوں میں تو ان کامیابیوں کی وجہ کوئی بھی ہو، مگر آزاد کشمیر کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ یہاں کے ووٹرز اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ چونکہ آزاد کشمیر حکومت، وفاقی پالیسیوں کے تحت چلتی ہے، لہٰذا وہ اپنے ووٹ کا صحیح حقدار وفاق میں حکومت کرنے والی جماعت کو سمجھتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کے مسائل حل کرنے کے لیے پوری طرح بااختیار ہے۔
مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے تین سالوں میں اسلام آباد میں موجود وفاقی حکومت نے ملک کے دیگر حصوں، مسئلہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کس بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جو اب کی بار یہاں حکومت ملنے پر کر دکھائے گی؟
یہ بھی پاکستانی جمہوریت کی خصوصیت ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی عوام نے اگر مسلم لیگ ن کو اگلے پانچ سالوں کے لیے منتخب کر لیا تو ایک بار عام انتخابات میں منتخب ہوجانے والی جماعت اسلام آباد میں اقتدار مکمل ہونے کے کئی سالوں بعد تک آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اقتدار میں رہے گی۔
اگر مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں اکثریت حاصل کرتی ہے تو یہ یقیناً اپوزیشن جماعتوں کی بھی نالائقی ہے، جو کہ پاناما لیکس کو بھی نواز حکومت کے خلاف استعمال نا کر سکیں، بلکہ حکومت کے ساتھ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز پر وقت برباد کرتی رہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ پاناما لیکس کے معاملے کو بنیاد بناتے ہوئے آزاد کشمیر کے انتخابی معرکے میں حکومت کو شدید زک پہنچائی جائے جس سے حکمران جماعت کو بھی اندازہ ہو کہ اس معاملے کے کتنے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
مگر آزاد کشمیر انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن کا بھی عجیب رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انتخابات میں اب صرف چند دن باقی رہ جانے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت انتخابی مہم چلانے آزاد کشمیر پہنچی ہیں۔
اور اتنی تاخیر سے انتخابی مہم شروع کرنے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اپنی جماعتوں کا منشور پیش نہیں کر رہے، بلکہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی خرابیاں اور کوتاہیاں بیان کر رہے ہیں، جو کہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس حکومت کی غلطیوں کو اپنے حق میں کیش کروانے کے علاوہ کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ 'متحدہ' اپوزیشن کے اختلافات بھی آزاد کشمیر کے انتخابات سے قبل کھل کر عیاں ہو گئے ہیں۔ ایک طرف تو عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری حکومت کے خلاف اکٹھے کنٹینر پر اکھٹے کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو دوسری طرف آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
یہاں تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے نامزد وزیرِ اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری پیپلز پارٹی کی طرف سے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کنٹینر پر ساتھ کھڑی ہوتیں یا نہ ہوتیں، انتخابی معرکے میں ہی ساتھ کھڑی ہوجاتیں تاکہ اپنے مشترکہ حریف کو نقصان پہنچایا جا سکے؟
لیکن لگتا ہے کہ ابھی ہماری جمہوریت اور سیاسی جماعتیں ابھی اسی مقام پر ہیں کہ جہاں اپنے حریف کو ہٹانے کے لیے تو سب ساتھ ہیں، مگر جیسے ہی اسے ہٹایا جائے گا، تو سارے ہی اقتدار کی دھینگا مشتی میں مصروف ہوجائیں گے۔
موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ کل کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں، تو اس میں زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہوگی اور بلاشبہ اس میں مسلم لیگ ن سے زیادہ کردار اپوزیشن جماعتوں کا ہوگا۔