• KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:39pm
  • KHI: Zuhr 12:37pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:34pm
  • ISB: Zuhr 12:13pm Asr 4:39pm

صرف قیادت نہیں، انداز کی تبدیلی

شائع June 27, 2013

پاکستان ٹیم میں اصل کردار قیادت کا ہے --- اے پی فائل فوٹو
پاکستان ٹیم میں اصل کردار قیادت کا ہے --- اے پی فائل فوٹو

کیا پاکستان کرکٹ کو یکسر بدل دینا چاہئے؟

یہ وہ سوال ہے جو آج کل، پاکستان میں ہر خاص و عام، شائقین، تجزیہ کاروں، اور سابق عظیم کرکٹرز کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے۔

کچھ لوگ ایک دم سب کچھ تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کچھ نے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے طویل مدتی پالیسی اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔

ان کے مطابق ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کی ازسرنو تعمیر، بورڈ میں ناگزیر تبدیلیاں اور چند دیگر  ضروری اقدامات کے بغیر اس ٹیم سے اچھے نتائج کی توقع کرنا بے سود نہیں-

دو ہزار پندرہ میں ہونے والا اگلا ورلڈ کپ اب صرف 29 ماہ کی وری پر ہے لہٰذا ایک بات تو طے ہے کہ فی الحال ہم کسی انقلابی تبدیلی کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن پھر بھی کچھ پہلو ایسے ہیں کہ جو فوری طور پر قابل توجہ ہی نہیں بلکہ حل طلب بھی ہیں۔

ان میں سے سب سے اہم ہماری کمزور بیٹنگ اور پاکستانی کرکٹ کی اپروچ ہے۔

بیٹنگ کے سنگین بحران کے بارے اب تک خاصی تفصیل میں مختلف تجزیے اور مشورے سامنے آ چکے ہیں لیکن چونکہ پاکستان کرکٹ کی اپروچ کا براہ راست تعلق قیادت سے ہے لہٰذا ورلڈ کپ سے پہلے یا فوری بعد اس کا تفصیلی تجزیہ اور سفارشات بلکل درست سمت میں ایک قدم ہو گا۔

عام مشاہدہ ہے کہ ایک کرکٹ کپتان کا کردار کسی اور کھیل میں کپتان کے کردار سے بالکل مختلف ہوتا ہے مثلاً ہاکی یا فٹ بال کے کپتان کی طرح ایک کرکٹ کپتان کو فقط سکہ اچھال کرٹاس ہی نہیں کرنا ہوتا بلکہ کھیل کے آغاز سے پہلے سے لے کر میچ کے اختتام تک مسلسل پلاننگ، فیلڈ کی تعیناتی، بیٹنگ آرڈر، باؤلنگ میں تبدیلیوں، غرض یہ کہ خود کو ذہنی طور پر مسلسل مصروف رکھتے ہوئے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کامیابی سے تبدیلیاں کرنی ہوتی ہیں۔

ایک کرکٹ کپتان کو عام طور پر قیادت کے لئے "لیڈ بائے ایگزامپل" یعنی دوسرے کھلاڑیوں کے لیے مثال بنتے ہوئے قیادت کے فرائض انجام دینے ہوتے ہیں جہاں اسے ٹیم میں اپنے کردار کے مطابق بلے، گیند یا پھر دونوں سے ہی کارکردگی دکھانی ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تمام کھلاڑیوں کے متحد رکھتے ہوئے بہترین پرفارمنس کا حصول ہے جس کی زندہ مثال ہندوستانی کپتان مہندرا سنگھ دھونی ہیں۔

تاریخی طور پر گرین شرٹس سے منسلک کامیابیاں یا ناکامیاں ایک خاص چیز کی جانب واضح اشارہ کرتی ہیں جو پاکستان کرکٹ کا خاصا ہے۔ اور وہ ہے فطری نڈر انداز جو کہ زیادہ نہیں بلکہ ماضی قریب میں بھی، ان پاکستانی ٹیموں کا وصف تھا جس کے باعث دنیا بھر کی ٹیمیں ہم پر رشک کرتی تھیں۔

پاکستان کرکٹ میں اس نڈر انداز کی بنیاد پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے رکھی۔ پاکستانی کرکٹ کے ابتدائی دنوں میں ملنے والی کامیابیوں میں جہاں کاردار کے فطری طور پر نڈر اور جارحانہ انداز کا دخل تھا، وہیں ان کا کھلاڑیوں کو ان کے طبعی میلان کے مطابق جارحانہ انداز میں کھیلنے کی آزادی بھی بہترین پرفارمنس کے حصول میں معاون ثابت ہوئی اور نتیجتاً پاکستان نے اپنے ابتدائی سالوں میں قابل قدر کامیابیاں بھی حاصل کیں۔

پھر نہ جانے کیا ہوا کہ سب کچھ جیسے کھو سا گیا۔

سن 60 اور 70 کے ابتدائی عشرے کی ٹیمیں اس نڈر، بے باک اور جارحانہ انداز کرکٹ کو آگے لے جانے میں ناکام رہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ زیادہ سے زیادہ کسی سیریز کو ڈرا ہی کر پاتیں اور ملکی شائقین نے ٹیم کو شاذ و نادر ہی فتح حاصل کرتے دیکھا۔

بعدازاں 70 کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بننے والے مشتاق محمّد اس خالص پاکستانی انداز کرکٹ، یعنی جارحانہ پن کو ٹیم میں واپس لانے کے سہرے کے حقدار ٹھہرے۔

اس انداز سے جہاں انھیں کپتان کی حثیت سے کامیابیاں ملیں تو ساتھ ہی پاکستانی کرکٹ کو بھی ان کامیابیوں سے فائدہ ملا۔

یہی وہ وقت تھا جب دنیا نے جانا کہ پاکستان ایک ایسی ٹیم ہے جو کہ دنیا کی بہترین ٹیموں کو بھی شکست دے سکتی ہے۔

اور پھر عمران خان نے پاکستان کرکٹ کی باگ ڈور سنبھالی اور جارحانہ انداز کو نئی اونچائیوں پر پہنچا دیا۔

عمران کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ میچ بچانے یا ڈرا کرنے کے بجائے صرف صرف جیتنے کے لئے کھیلتے تھے۔

جاوید میانداد گو کہ اپنے اطوار اور سٹائل کی بنا پر مختلف نظر آتے تھے لیکن وہ بھی عمران ہی کی طرح جارحانہ انداز کی کرکٹ کھیلتے تھے اور پھر ان کے بعد آنے والے بیشتر کا یہی شیوہ رہا۔

سن 99 کے ورلڈ کپ میں اسٹارز سے سجی اور اب تک کی شاید سب سے بہترین قومی ٹیم کی قیادت کرنے والے وسیم اکرم بھی ایک جارح مزاج کپتان تھے۔

ایک نیا آغاز

آج اگر پاکستانی ٹیم پر نظر ڈالیں تو ایک چیز جو واضح طور پر غائب نظر آتی ہے وہ جوش اور جذبے کی موجودگی ہے۔

یہ وہ جوش اور جارحانہ انداز ہی تھا جس نے پاکستانی ٹیم کو "ہر سمت سے پھنسے شیر کے بچوں" سے ورلڈ چیمپئن بنایا تھا۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کپتان مصباح الحق حالیہ وقتوں میں ہمارے بہترین بلے باز یا کم از کم بہترین بلے بازوں میں سے ایک رہے ہیں۔

ان کی کپتانی میں ٹیم نے 2012 میں متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں اس وقت کی نمبر 1 ٹیسٹ ٹیم انگلینڈ کو تین صفر کی تاریخی کلین سوئپ شکست سے بھی دوچار کیا لیکن اس کے باوجود اگر ذہنوں پر زور ڈال کر ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک چیز جو واضح دکھائی دے گی وہ مصباح کے انداز میں آگے بڑھ کر موقع کو تھامنے کی صلاحیت کی سرے سے عدم موجودگی ہے۔

مصباح ایک ٹھنڈے مزاج کے انسان ہیں جو کہ بنیادی طور پر اپنی دفاعی حکمت عملی پر کاربند رہتے ہیں اور جب تک فتح اپنے آپ آگے بڑھ کر ان کی جھولی میں نہ آ گرے وہ اس کے حصول کے لئے خاص سعی کرتے نظر نہیں آتے لیکن ان کے اس میکانیکی انداز نے ٹیم کو استحکام بھی بخشا-

یہ پاکستان کرکٹ کے لیے بہت کڑا وقت تھا، سپاٹ فکسنگ کے بحران نے ٹیم کو بکھیر کر رکھ دیا تھا اور ان کا یہ ٹھنڈا اور دھیما مزاج ایسے موقع پر ٹیم کے انتہائی موزوں تھا-

انہوں نے تمام لڑکوں کو جوڑے رکھا۔ اپنے میکانیکی انداز اور دفاعی حکمت عملی کے باوجود وقت اور حالات کے تناظر میں ان کے حصّے میں حیرت انگیز طور پر کامیابیاں بھی آ گئیں لیکن یہ کامیابیاں کبھی ایک تسلسل میں نہ ڈھل سکیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اقدامات پاکستان کرکٹ کے زوال کا سبب ٹھہرے۔

پاکستان کے فطری طور پر نڈر، بے باک، اور جارح مزاج کھلاڑیوں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے فطری مزاج اور انداز کے برخلاف کھیلیں۔

مصباح اب 39 سال کے ہو چکے ہیں اور اپنے کچھ حالیہ انٹرویوز کے مطابق، وہ خود اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ وہ اپنے کیریئر کے اختتام پر ہیں۔

یہی وقت ہے کہ مصباح خود یہ بھی سوچیں کہ وہ پاکستان کرکٹ میں کس قسم کی میراث چھوڑے جا رہے ہیں۔

وہ اگلے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کا حصہ ہوں گے یا نہیں، یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لہٰذا موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ عقل مندی نہیں ہو گی کہ ہم اب ٹیم کے اگلے لیڈر کے لئے خاص طور پر اور ساتھ ہی قیادت سے جڑے دوسرے پہلوؤں کے حوالے سے سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ لے لیں۔

کرکٹ کے ماہرین اور سابق کرکٹرز کی جانب سے اس حوالے سے جو نام زیر بحث آئے ہیں ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو کہ پہلے بھی اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں اور چند ایسے ہیں جو جن کا کپتانی کے حوالے سے کوئی بھی قابل ذکر تجربہ بھی نہیں۔

نئے قائد کی تلاش

محمّد حفیظ:

حفیظ کو جب پاکستان کی ٹی 20 ٹیم کا کپتان بنایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اس عمل کو حفیظ کے لئے کپتانی سیکھنے کا موقع قرار دیا اور امید کی جا رہی تھی کہ جب مصباح کے الوداع کا وقت آئے گا تو حفیظ بحیثیت کپتان تیار ہوں گے۔

کپتان کے طور پر وہ ہمیشہ سوچ بچار کرتے ہوئے وہ ہمیشہ حریف کو زیر کرنے کے موقع کی تاک میں دکھائی اور ہندوستان اور جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی دونوں ٹی 20 سیریز میں حفیظ کی کپتانی کے سارے اچھے پہلو سامنے آئے۔

انہوں نے بحیثیت کپتان کبھی بلے تو کہیں اپنی کرشماتی باؤلنگ سے چند قابل دید پرفارمنس دیں لیکن یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں اب بھی ان کا بیٹنگ یا بولنگ اوسط کسی بھی طرح قابل رشک نہیں اور یہی وہ پہلو ہے جو لمبے عرصے کے لئے ان کے کپتانی کے امیدوار کی حیثیت کو کمزور بناتا ہے۔

اظہر علی:

کچھ حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ اظہر علی کو کپتان بنا دیا جائے۔ آئیے، پہلے ان کے اعداد و شمار پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔

انگلینڈ کے خلاف 2010 کی سیریز میں ڈیبیو کرنے والے اظہر پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کے اب ایک مستقل رکن ہیں، گو ٹیسٹ میں 41 کا بیٹنگ اوسط آج کے دور میں کرکٹ کھیلنے والے بہت سے ممالک میں درغوراعتناء بھی نہ سمجھا جائے لیکن پاکستان میں کرکٹ جس دور سے گزر رہی ہے اس میں یہ حقیقتاً اطمینان بخش ہے۔

ان کی محدود صلاحیت اور اپروچ کا اندازہ ٹیسٹ میں 39 اور ون ڈیز میں 64 کے سٹرائیک ریٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، وہ بنیادی طور پر ایک دفاعی بیٹسمین ہیں اور پاکستان کی حالیہ بیٹنگ کے بحران میں ان کی یہ صلاحیت کام ہی آتی ہے۔

مگر اہم بات یہ ہے کہ اگر انہیں کپتانی سے نوازا گیا تو وہ اپنا یہی دفاعی انداز اپنی کپتانی میں بھی اپنائیں گے جو کہ لازمی طور پر ان کے کھیل پر بھی اثر انداز ہو گی۔

شاہد آفریدی:

میڈیا اور شائقین میں یکساں مقبول اور ہردلعزیز سابق کپتان بوم بوم آفریدی کو بھی دوبارہ ٹیم کا کپتان مقرر کرنے کی باز گشت سنائی دی ہے لیکن حقیقتاً کرکٹ میں ان کے عروج کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ گو کہ وہ اب بھی صرف 33 سال ہی کے ہیں لیکن پچھلے تقریباً ایک سال سے وہ اپنی فارم میں نظر ہی نہیں آئے۔

اسی وجہ سے یہ امید کرنا کہ وہ اگلے دو چار سیزنز تک کرکٹ ٹیم کا حصہ رہ سکتے ہیں محض خام خیالی ہی ہو گی جبکہ کرکٹ میں ان کی غیر مستقل مزاجی کبھی کبھار تو ٹیم کے لئے بہت مشکلات کا باعث بن جاتی ہے۔

کیا کوئی بال چبانے کے واقعے یا ایک ٹیسٹ میں کپتانی کے بعد یک دم ریٹائرمنٹ کے فیصلے کو بھی بھول سکتا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ کپتان کے لئے ان کے بارے میں سوچنا اصولی طور پر تو غلط ہی ہے لیکن پاکستان کرکٹ میں عجیب و غریب چمتکار ہوتے رہتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ کل کو یہ اعلان سامنے آئے کہ آفریدی ون ڈے ٹیم کے کپتان بنا دیے گئے ہیں۔

یونس خان:

پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان یونس خان کو بھی کپتان بنانے کا مطالبہ چند حلقوں میں زیر غور ہے، پاکستانی کرکٹ کی صورتحال اور تاریخ کے تناظر میں یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں ہو گی لیکن یہ بھی صرف فوری طور پر بحران کو ٹالنے کے مترادف ہو گا-

جب یونس نے کپتانی سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا تو ایک طرح سے انہوں نے اپنی اس خامی کا بھی اعتراف کیا تھا کہ کپتانی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں اور لڑکوں کو آگے لے کر جانے کی صلاحیت شاید ان میں ہے نہیں یا وہ اسے استعمال نہیں کر پاتے- لہٰذا منطقی اعتبار سے انھیں بھی آفریدی کی طرح کپتان بنانا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہو گا-

اسد شفیق:

اس بات پر سب ہی متفق نظر آتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کے جو نوجوان کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے ہیں ان میں اسد سب سے بہتر ہیں۔

ٹیسٹ میں ان کا اوسط 40 ہے جبکہ ان کا سٹرائیک ریٹ اظہر کے مقابلے میں تھوڑا بہتر یعنی 42 ہے۔

مشکل حالات میں دباؤ کو جھیل جانے کی ان کی صلاحیت انھیں ٹیم کے بقیہ نئے کھلاڑیوں سے ممتاز بناتی ہے۔

ضرورت پڑنے پر وہ جارحانہ انداز بھی اپنا سکتے ہیں اور جنوبی افریقہ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان کے ساتھ مشکل وقت میں بہترین پارٹنرشپ قائم کر کے انہوں نے اس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ بھی کیا تھا ج کی بناء پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اسد ایک طویل عرصے تک ٹیم کے ساتھ منسلک رہنے والے ہیں۔

اس بات کے پیش نظر کہ ہمارے پاس کپتان کے امیدوار کے لئے بہت زیادہ حقیقی آپشنز موجود نہیں، اسد کپتانی کے لئے نسبتاً بہتر امیدوار نظر آتے ہیں مگر صرف سیدھا سیدھا انھیں کپتان بنا دینا کافی نہیں ہو گا۔

ہمارے بورڈ، ناقدین، میڈیا اور سب سے بڑھ کر شائقین کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اسد کا ساتھ دیں۔ بالکل اسی طرح جیسے جنوبی افریقہ کے بورڈ اور عوام نے گریم اسمتھ کو 22 سال کی عمر میں کپتان بنانے کے بعد کیا تھا۔

حمّاد اعظم:

حماد کے نام پر یقیناً اکثریت حیرانی کا اظہار کرے گی لیکن اگر انہیں آئندہ کچھ عرصے میں مستقل مزاجی سے مواقع دیے جائیں تو وہ یقینی طور ر ایک اچھا انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں۔

حمّاد اعظم 2010 کے انڈر 19 ورلڈ کپ میں ایک چمکتے ستارے کی مانند ابھر کر سامنے آئے تاہم بدقسمتی سے اب تک انہیں صرف 10 ون ڈے میچوں اور 3 ٹی 20 میچوں میں پاکستان نمائندگی کا اعزاز حاصل ہو سکا ہے۔

وہ قدرتی صلاحیتوں سے مالامال ایک فطری آل راؤنڈر ہیں لیکن موجودہ ٹیم مینجمنٹ کی نگاہ میں باؤلنگ ان کا کمزور پہلو ہے۔

اگر ہم کسی طویل مدتی حکمت عملی یعنی "لونگ ٹرم اپروچ" اپنانے کا سوچ رہے ہیں تو حماد، فطری طور پر اپنے جارحانہ مزاج اور اپروچ کی بنا پر یقیناً ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوں گے۔

مندرجہ بلا محدود فہرست یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ جو کہ فی الحال تو خود اپنے لیڈر سے محروم ہی ہے، شاید سب سے زیادہ آسان دکھنے والے حل کا انتخاب کرے- اور یہ انتخاب، شاید وقتی طور پر کچھ کام دکھا بھی جائے، لیکن اس سے ایک اور چیز دوبارہ ابھر کر سامنے آئے گی۔

اور وہ ہے پاکستان کی ایک اور کمزوری یعنی قابل اور اہل لیڈرز کا قحط، ایک ایسا کپتان جو مشکل حالات میں بھی مرد آہن کی طرح کھڑے رہ کر ٹیم کو موجودہ حالات اور کیفیت کے مدوجزر سے نکال سکے۔

کارٹون

کارٹون : 29 مارچ 2025
کارٹون : 28 مارچ 2025