ترکی بغاوت:کویت میں تعینات ترک ملٹری اتاشی گرفتار
دبئی: سعودی حکام نے کویت کے لیے ترک ملٹری اتاشی میکائیل گولو کو صدر طیب رجب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں ان کے مشتبہ کردار پر سعودی شہر دمام کے ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے حوالے سے کہا کہ ملٹری اتاشی میکائیل گولو کو ترکی کی درخواست پر ایئرپورٹ پر روکا گیا اور ملک میں بغاوت میں ممکنہ کردار ادا کرنے کے بعد بھاگنے کی کوشش کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔
سعودی چینل ’العربیہ نیوز‘ نے مصدقہ ذرائع کے حوالے سے ان رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ گولو براستہ ایمسٹرڈیم ڈوسلڈورف جرمنی جارہے تھے۔
کویتی اخبار القباس کا کہنا تھا کہ گولو کویت سے سعودی عرب کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
کویت میں ترکی کے سفیر صالح مورات تیمر نے اخبار کو بتایا کہ گولو کی فوجی مداخلت میں مشکوک کردار تھا، لیکن ان کی ترکی حوالگی کے بعد ان کے خلاف الزامات کی چھان بین ہوگی۔
مزید پڑھیں: ترکی بغاوت: ملوث جنرل اسرائیل میں فوجی اتاشی تھے
واضح رہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ججوں اور فوجی کمانڈروں سمیت تقریباً 6 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
ترک صدر اردگان نے اس بغاوت کا الزام امریکا میں موجود حریف مذہبی رہنما فتح اللہ گولن پر عائد کیا تھا۔
طیب اردگان نے استنبول میں اپنے گھر کے باہر جمع ہزاروں حامیوں سے خطاب میں کہا تھا کہ ملک کو گولن کی تحریک سے بہت نقصان پہنچا ہے اور میں امریکا سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ یا فتح اللہ گولن کو گرفتار کرے یا پھر ترکی کے حوالے کرے۔
ترک صدر نے کہا کہ اگر ترکی اور امریکا اسٹریٹجک پارٹنرز ہیں تو امریکا وہ کرے جو ضروری ہے، ترکی نے کبھی دہشت گرد کی حوالگی کی امریکی درخواست رد نہیں کی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ترکی الزامات کے بجائے ثبوت پیش کرے کیونکہ امریکا مجرموں کی حوالگی کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترک حکام الزامات کے بجائے فتح اللہ گولن کے خلاف ثبوت بھیجے۔
مزید پڑھیں: فوجی بغاوت: امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ؟
’ترکی آئین و قانون کی بالادستی کا احترام کرے‘
دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرنی نے کہا ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں پر انسانی حقوق کو پامال کیا جائے۔
انھوں نے ترکی پر زور دیا کہ وہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کا احترام کرے۔
ترکی میں سزائے موت کے قانون کے حوالے سے موغیرنی کا کہنا تھا کہ ترکی نے یورپین ہیومن رائٹس کنونشن میں دستخط کیے ہیں جن پر عملدارآمد ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سزائے موت کا قانون بنانے والا کوئی بھی ملک یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکتا۔