بغاوت کے بعد: 'ترکی میں خطرہ ابھی ٹلا نہیں '
انقرہ: ترکی میں فوج کے ایک باغی دھڑے کی جانب سے اقتدار پر قبضے کی کوشش تو ناکام بنادی گئی تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے کیوں کہ گزشتہ شب ترکی میں رات بھر ایف سولہ طیارے پرواز کرتے رہے۔
امریکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ترکی کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ رات بھر ایف سولہ طیارے ملک کی فضائی حدود کی نگرانی کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں:فوجی بغاوت: امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ؟
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان کی ہدایت پر رات بھر ایف سولہ طیارے گشت کرتے رہے۔
واضح رہے کہ بغاوت کی کوشش کرنے والے دھڑے نے بھی جنگی طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اہم سرکاری عمارتوں پر فائرنگ کی تھی اور اہم شہروں میں ٹینک سڑکوں پر لے آئے تھے تاہم وفادار فوجیوں اور عوام نے اس کوشش کو ناکام بنادیا۔
باغی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں تقریباً 294 افراد ہلاک اور 1400 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
باغیوں کو پکڑنے کا سلسلہ جاری
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے بتایا کہ اقتدار پر قبضے کی سازش میں حصہ لینے والوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے، اب تک ساڑھے 7 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے اور مزید چھاپے مارے جارہے ہیں۔
مزید پڑھیں:جب ترک عوام نے فوجی بغاوت ناکام بنائی
استنبول میں انسداد دہشت گردی پولیس یونٹس کے اہلکاروں نے ایئرفورس ملٹری اکیڈمی میں چھاپہ مار کارروائی کی۔
ترکی کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ہلوسی آکار کو یرغمال بنانے والے باغی جنرل محمد دیسلی کو بھی گرفتار کیا جاچکا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بغاوت میں حصہ لینے والے 103جنرلز اور ایڈمرلز اور 2800 فوجی اہلکاروں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں سے 10 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا جاچکا ہے۔
گزشتہ دنوں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہا تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، عوام سڑکوں پر موجود رہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن
انقرہ اور استنبول میں عوام نے اتوار کی شب بھی جشن منایا اور اردگان کے حق میں نعرے لگائے، بڑی تعداد میں لوگ انقرہ کے کیزیلے اسکوائر اور استنبول کے تقسیم اسکوائر پر موجود رہے۔
سزائے موت کی بحالی پر غور
ترک حکومت نے بغاوت میں شامل افراد کو سبق سکھانے کے لیے سزائے موت پر 2004 سے عائد پابندی ختم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ترک صدر طیب اردگان نے اپنے بیان میں کہا کہ سزائے موت کی بحالی میں تاخیر نہیں کی جائے گی اور اس سلسلے میں حکومت اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم تمام ریاستی اداروں سے 'وائرس' ختم کرنے کا کام جاری رکھیں گے، اس وائرس نے کینسر کی طرح ملک کو شکنجے میں لیا ہوا ہے۔
تاہم ترکی کے اس فیصلے پر یورپی ممالک نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور سزائے موت کی بحالی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
مزید پڑھیں:ترکی میں کب کب فوجی حکومت بنی؟
آسٹرین وزیر خارجہ سیباسٹین کرز نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اگر بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی نے سزائے موت پر پابندی ختم کردی تو یہ ناقابل قبول اقدام ہوگا۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے بھی ترک صدر طیب اردگان پر زور دیا ہے کہ وہ بغاوت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔
امریکی صدر اوباما اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بھی ترکی سے قانون کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی یورپی یونین میں شمولیت کا خواہاں ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات بھی جاری ہیں تاہم سزائے موت کی بحالی سے اس کی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کی کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں۔