شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق تکنیکی مسائل کا شکار
اسلام آباد: حکومت نے ملک بھر کے تقریباً ڈھائی کروڑ خاندانوں کا ڈیٹا درست کرنے کے لیے 2 ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے تاہم شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہے۔
اس کی اہم وجہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور موبائل فون کمپنیوں کے درمیان موثر رابطے کا فقدان ہے۔
نادرا ذرائع کے مطابق یکم جولائی کو شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کی مہم شروع ہونے کے بعد سے شارٹ کوڈ 8008 پر 7 لاکھ پیغامات موصول ہوچکے ہیں تاہم صرف 4 لاکھ شہریوں کو مثبت جواب دیئے جاسکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:6 ماہ میں تمام شناختی کارڈز کی تصدیق کا اعلان
کئی شہریوں نے جب اپنے کوائف مقررہ کوڈ پر ارسال کیے تو انہیں جواب ملا کہ 'فی الوقت نادرا کے پاس آپ کے موبائل نمبر پر کوئی ڈیٹا موجود نہیں لہٰذا اس وقت آپ کی درخواست پر کارروائی ممکن نہیں، برائے مہربانی دوبارہ کوشش کریں'۔
اس مسئلے کے حوالے سے نادرا کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ وہ شہری جنہوں نے اپنے موبائل فون نمبرز نادرا کے ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ کرائے ہوئے ہیں صرف انہیں ہی مثبت جواب مل رہے ہیں۔
جن شہریوں کے موبائل نمبر کا ڈیٹا نادرا کے پاس موجود نہیں، ان میں بے چینی پائی جارہی ہے، ایسے کئی شہریوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومتی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے ان کے موبائل نمبرز یا شناختی کارڈ بلاک نہ کردیئے جائیں۔
مزید پڑھیں:شناختی کارڈ کی تصدیق: ایس ایم ایس سروس متعارف
ایک شہری سید علی، جو اپنے خاندان کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ ان کا موبائل نمبر بائیو میٹرک طریقے سے ان کے نام پر رجسٹرڈ ہے، ان کا کہنا تھا کہ 'اگر موبائل نمبر میں کوئی مسئلہ ہے تو یہ ایک سال سے 'آن' کیسے ہے؟ '
سید علی نے کہا، 'مجھے ڈر ہے کہ وہ میرا شناختی کارڈ منسوخ کردیں گے۔'
واضح رہے کہ موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے موبائل سمز کی بائیو میٹرک تصدیق کا عمل مئی 2015 میں مکمل کرلیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں 11 کروڑ 40 لاکھ موبائل کنکشنز رہ گئے تھے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں 13 کروڑ 30 لاکھ موبائل فون کنکشنز موجود ہیں جو سم خریدنے والے شخص کے شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ بائیو میٹرک طریقے سے رجسٹرڈ ہیں۔
لیکن نادرا حکام کا کہنا ہے کہ انہیں سب سے زیادہ فکر شہریوں کی نجی معلومات کی ہے، نادرا کے ترجمان محمد فائق نے بتایا کہ ہم ایک سسٹم پر کام کررہے ہیں جس کے ذریعے شہریوں کی ذاتی معلومات افشاء ہونے اور اس کے غلط استعمال سے بچا جاسکے گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ موجودہ سسٹم کے تحت کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے شخص کا شناختی کارڈ نمبر 8008 پر بھیج سکتا ہے اور اگر جواب میں اسے بھیجے گئے شناختی کارڈ نمبر کی تمام تفصیلات فراہم کردی جائیں تو یہ غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہوگا۔
دوسری جانب موبائل فون کمپنیوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نادرا کو ان کے ڈیٹا بیس تک رسائی دینے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران نے اس حوالے سے بتایا کہ پی ٹی اے موبائل نمبرز کی تفصیلات غیر مجاز شخص کو نہیں دینا چاہتی اور ان میں بعض سرکاری محکمے بھی شامل ہیں۔
طالبان رہنما ملا اختر منصور کی پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ڈرون حملے میں ہونے والی ہلاکت کے بعد رواں برس مئی میں حکومت نے ملک کے ڈھائی کروڑ خاندانوں کی تفصیلات کی دوبارہ تصدیق کا فیصلہ کیا تھا۔
ملا اختر منصور کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ ولی محمد کے نام سے پاکستانی شہریت کا حامل تھا۔
مزید پڑھیں:ملامنصورشناختی کارڈمعاملہ:نادرا کا’اہم کردار‘گرفتار
نادرا کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ابتدائی انکوائری کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ نادرا کے افسران نے پاکستانی خاندانوں میں جعلی افراد کا اندراج کررکھا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ نادرا کے ڈیٹا میں گڑبڑ ہے اور بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کی ہدایات جاری کی گئیں تاکہ کوئی بھی غیر ملکی پاکستانی شناختی کارڈ استعمال نہ کرسکے اور جن غیر ملکیوں کو پہلے ہی شناختی کارڈز جاری ہوچکے ہیں، انہیں منسوخ کیا جاسکے۔
پی ٹے اے کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ حکومتی اداروں میں ایسے ناقابل بھروسہ افراد کام کررہے ہیں جو اپنے افسران کے علم میں لائے بغیر شہریوں کے ڈٰیٹا کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ نادرا اور موبائل فون کمپنیوں کے درمیان رابطے کا ایک مکینزم تیار کرلیا گیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ ہفتے سے اس کے مطابق کام شروع ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے سسٹم کے تفصیلات جاننے کے لیے جس نمبر سے ایس ایم ایس آئے گا، نادرا اُس نمبر کو ملک میں کام کرنے والی پانچوں موبائل فون کمپنیوں کو بھیجے گی تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ موبائل نمبر اور شناختی کارڈ نمبر ایک ہی شخص کا ہے یا نہیں۔
یہ خبر 18 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (2) بند ہیں