رینجرز سے رنجش، وزیر داخلہ سندھ کی تبدیلی متوقع
کراچی: اسد کھرل کے معاملے پر سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان رنجش ختم کرنے کیلئے حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی کابینہ میں رد و بدل پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت کی جانب سے کابینہ میں تبدیلی کا مطالبہ کیا جارہا تھا کہ تاکہ شدت پسندوں اور مجرموں کے خلاف رینجرز کا آپریشن غیر جانبداری سے جاری رہے۔
یہ بھی پڑھیں: تفتیش میں رکاوٹ، رینجرز پیپلز پارٹی سے ناراض
سرکاری طور پر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کابینہ میں رد و بدل کی خبروں کو مسترد کیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ امن و امان کے حوالے سے اجلاس وزیر اعلیٰ ہائوس میں ہوا جس کی صدارت قائم علی شاہ نے کی۔
اجلاس کے ایجنڈے میں اسد کھرل کے معاملے پر سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا معاملہ بھی شامل تھا۔
اسد کھرل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے قریبی ساتھی ہیں اور ان کے بھائی کی مداخلت پر رینجرز کو اسد کھرل کو چھوڑنا پڑا تھا ۔
حکومت اور وزیر داخلہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں رینجرز کے چیف کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ رینجرز اہلکار قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی بھی جگہ مجرموں کو پکڑنے کیلئے جاسکتے ہیں، اس کے بعد رینجرز اہلکاروں نے لاڑکانہ میں وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے گھر کا گھیرائو کرلیا تھا۔
مزید پڑھیں:رینجرز کی رپورٹ:"پیپلز پارٹی کو کوئی پریشانی نہیں"
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہائوس میں باضابطہ اجلاس سے قبل وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سے ملاقات کی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ یہ وزیر اعلیٰ سندھ کا اقدام تھا جس کی وجہ سے سندھ حکومت کو فائدہ ہوا اور رینجرز کے سربراہ کو اجلاس میں شرکت کیلئے آمادہ کرلیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ وزیر داخلہ سندھ کی تبدیلی کے حوالے سے پیغام پیپلز پارٹی کی قیادت کو پہنچائیں گے اور امکان ہے کہ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری آئندہ ہفتے تک اہم اجلاس طلب کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی: بھتہ اہم شخصیات میں تقسیم ہونے کا انکشاف
ذرائع کے مطابق اجلاس میں ابتدائی طور پر وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے ساتھ ساتھ دیگر اہم قلمدان بھی تبدیل کیے جائیں گے۔
گزشتہ دنوں سندھ حکومت اور رینجرز کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات سے صورتحال مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
ڈی جی رینجرز نے ایک ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز کے اختیارات پر تنقید کرنا مجرموں کی حمایت کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ صوبہ سندھ میں مجرموں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں جرائم پیشہ افراد کراچی میں کارروائی کے بعد چھپ جاتے ہیں۔
مشیر اطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو نے اس حوالے سے اپنے رد عمل میں کہا کہ قیام امن اور مجرموں کی گرفتاری کیلئے وہ جہاں چاہے جاسکتے ہیں لیکن ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کی جائے گی جس سے جمہوریت کی حقیقی روح اور تصور کی نفی ہوتی ہو۔
مزید پڑھیں:کراچی میں کارروائی، رینجرز کو فوج کی مکمل حمایت
اس حوالے سے ترجمان سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں شرکاء کو بتایا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے بیرسٹر اویس شاہ کی بحفاظت بازیابی اور قوال امجد صابری کے قاتلوں کی گرفتاری حکومت کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اور رینجرز کو دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ان دو مقدمات پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
اجلاس میں صوبائی وزراء سید مراد علی شاہ، سہیل انور سیال، سید ناصر شاہ اور معاون خصوصی ڈاکٹر قیوم سومرو بھی شریک تھے۔
ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ٹارگیٹڈ آپریشن اور اویس شاہ اغوا کیس اور امجد صابری کے قاتلوں کی گرفتاری کے سلسلے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔
آئی جی سندھ نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ امجد صابری قتل کیس میں بعض گرفتاریاں ہوئی ہیں اور قاتلوں تک پہنچنے کیلئے اہم سراغ ملے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اویس شاہ کی بحفاظت بازیابی کے لئے تمام سیکیورٹی ایجنسیاں آپس میں رابطے میں ہیں اور مل کر کام کررہی ہیں۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے معاون خصوصی برائے مذہبی امور ڈاکٹر قیوم سومرو کو ہدایت کی کہ ہر ضلع میں امن کمیٹیاں قائم کی جائیں اور جہاں پہلے سے موجود ہیں انہیں فعال کیا جائے۔
یہ خبر 17 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی