تحفظِ پاکستان ایکٹ: 'توسیع کی مخالفت کی جائے گی'
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے چیف مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ان کی جماعت تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 یا پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ (پوپا) 2014 میں توسیع کی مخالفت کرے گی۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز ایکٹ کی مقرر 2 سال کی میعاد مکمل ہوچکی ہے جس کے بعد اس ایکٹ کے تحت بننے والی فوجی عدالتیں عملی طور پر تحلیل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات ختم ہوچکے ہیں جبکہ اس چیز کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے حکومت مذکورہ ایکٹ میں مزید دو سال کی توسیع کرے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'تحفظ پاکستان ایکٹ جمہوری اقدار کے خلاف ہے اور حکومت کو ایسے کسی قانون کی توسیع نہیں دینی چاہیے'۔
انھوں نے زور دیا کہ مذکورہ قانون کے تحت مذہبی جماعتوں اور ان کے کارکنوں کا نشانہ بنا جارہا ہے۔
جے یو آئی ف کے چیف کا کہنا تھا کہ 'تحفظ پاکستان ایکٹ ملک کی مذہبی جماعتوں، ان کے کارکنوں اور مذہبی رہنما کو نشانہ بنانے کیلئے بنایا گیا ہے'۔
مزید پڑھیں: انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس کے مسودے کی منظوری
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس سے قبل قائم کی جانے والی فوجی عدالتیں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'عوام اُمید کر رہی تھی کہ فوجی عدالتیں ان کو انصاف مہیا کرے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا'۔
انھوں نے کہا کہ 'فوجی عدالتیں قائم کرنے سے یہ تاثر ملا ہے کہ پہلے سے قائم عدالتیں نظام اور جج کمزور تھے'۔
مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص 4 سال قبل لاپتہ ہوا لیکن فوجی عدالت نے اسے ایسے جرم میں پھانسی دی جو واقعہ صرف ایک سال قبل رونما ہوا تھا'۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے 2014 میں تحفظ پاکستان بل 2014 کی منظوری دی تھی جس کا مقصد سیکیورٹی فورسز کو اس بات کی اجازت فراہم کرنا تھا کہ وہ ملزمان کو 15 گریڈ کے افسر کے حکم پر موقع پر ہی گولی کا نشانہ بناسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک 'دشمنوں' کے خلاف خصوصی عدالت کی پہلی سماعت
اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد جنوری 2015 میں اسی حوالے سے صوبائی دارالحکومتوں میں خصوصی عدالتیں تشکیل دی گئی تھیں۔
مذکورہ ایکٹ کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا جارہا تھا کہ اس پر عمل درآمد کرانے کا مقصد پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اضافی اختیارات مہیا کرنا ہے'۔
مقدمات کی تعداد کے باعث سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو ان خصوصی عدالتوں کے کام میں کسی بھی قسم کی مزید تاخیر نہ کرنے کا حکم دیا تھا، تاکہ چالان پیش کیے جانے کے بعد ٹرائل کا آغاز ممکن ہوسکے۔
پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014 کیا ہے؟
آرڈیننس کے سیکشن 3/2 کے حصہ اے کے مطابق یہ آرڈیننس قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملزمان کو موقع پر ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے، آرڈیننس کے اس سیکشن کے تحت پولیس و فوج کے اہلکاروں کے علاوہ سول مسلح فورسز کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص پر گولی چلا سکیں گے۔
آرڈیننس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے وارنٹ کے بغیر کسی بھی جگہ داخل ہو کر سرچ آپریشن کرنے اور کسی بھی شخص کو حراست میں لینے کا اختیار ہوگا، جو جرائم میں ملوث ہوگا۔
آرڈیننس کی دفعہ 5 (5) کے مطابق اگر کوئی بھی شخص اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام ہوتا ہے اسے پاکستان مخالف جنگجو کے طور پر دشمن قرار دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج
اسی طرح آرڈیننس کی دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی نامعلوم شخص کو بھی حراست میں لیا جاسکتا ہے۔
یہ دفعہ محتاط حراست سے متعلق ہے، جس کے تحت حکومت وزارتِ داخلہ یا کسی ایسے آفیسر کی طرف سے تحریری حکم نامہ جاری کرسکتی ہے جو بی پی ایس 21 گریڈ سے کم نہ ہو جو خاص طور پر اس مقصد کے لیے نامزد کیا ہو اور اس کو اختیار ہو گا کہ وہ جرائم میں ملوث شخص کو گرفتار کرکے 90 روز تک حراست میں رکھ سکتا ہے۔
نئے قانون کی دفعہ 9 حراست، پوچھ گچھ، تفتیش کی منتقلی اور مقدمات کی سماعت ملک بھر میں کرنے سے متعلق ہے۔
آرڈیننس کی دفعہ 12 کے تحت حکومت گواہوں، تفتیشی آفیسروں، پراسیکوٹرز، خصوصی عدالتی مجسٹریٹس اور ججوں کے علاوہ ملک بھر کی عدالتوں کے ساتھ حفاظتی حراستی مراکز کو سخت سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے گی۔
تبصرے (1) بند ہیں