بوسنیا میں قتل عام، جنگ کے 21سال بعد بھی تدفین جاری
جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ میں ہونے والے بدترین قتل عام کو 'سانحہ سربرینیکا' کا نام دیا جاتا ہے جب جولائی 1995 میں سرب فوجیوں نے تقریباً 8 ہزار بوسنیائی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔
بوسنیائی مسلمان شائد اس سانحے کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے، حال ہی میں اس نسل کشی کا شکار ہونے والے مزید 127 افراد کی باقیات کی ڈی این اے کے ذریعے شناخت ہوئی ہے۔
شناخت ہونے کے بعد ان ہلاک شدگان کے اہل خانہ کے وہ زخم پھر سے ہرے ہوگئے جو تقریباً 21 برس پہلے لگے تھے، سربیا کی فوج نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچے ہوں یا بوڑھے، کسی پر رحم نہیں کیا۔
اس موقع پر اجتماعی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی اور تقریباً 10 ہزار سے زائد لوگوں نے اس میں شرکت کی، نماز جنازہ بوسنیا کے مفتی اعظم حسین کاوازووچ نے پڑھائی۔
سانحہ سربرینیکا کے 21 برس مکمل ہونے پر مزید 127 مقتولین کو ایک تقریب میں خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد ان کی باقیات یادگاری مقام پر دفن کی گئیں جو گزشتہ چند برسوں میں مختلف مقامات سے دریافت ہوئی تھیں۔
تقریب میں شریک ہلاک شدگان کے اہل خانہ غم سے نڈھال نظر آئے، وہ 21 برس بعد اپنے پیاروں کی باضابطہ طور پر تدفین کرنے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے۔
رواں برس مارچ میں اقوام متحدہ کے خصوصی ٹریبونل نے سابق بوسنیائی سرب رہنما رادووان کاراجیچ کو سانحہ سربرینیکا کے حوالے سے نسل کشی کا مرتکب قرار دے کر 40 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
جنگ کے دوران ملٹری چیف کے عہدے پر موجود راٹکو ملاڈچ کا مقدمہ بھی انٹرنیشنل کرمنل ٹریبونل میں چل رہا ہے۔
بین الاقوامی عدالتیں سربرینیکا قتل عام کو 'نسل کشی' قرار دے چکی ہیں لیکن اب بھی سربیا اور بوسنیا میں موجود سرب باشندے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
بوسنیا کی جنگ 1992 سے 1995 تک جاری رہی تھی اور اس دوران تقریباً ایک لاکھ افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔