میری عید یادگار بنانے والی 80 مسکراہٹیں
جب میں توصیف میموریل اسکول (ٹی ایم ایس) کے ایک کلاس روم میں داخل ہوئی تو تھوڑی گھبرائی ہوئی تھی، مجھے اس سے قبل بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
مگر پوری کلاس کھڑی ہوئی اور ہم آواز ہو کر مجھے خوش آمدید کہا — 'گڈ مارننگ ٹیچر!'۔ میں ہنس پڑی اور یوں مجھے تھوڑا اعتماد حاصل ہوا۔
دوسرے کمرے میں میری طرح کے رضاکار 'کمک پاکستان' کی ٹیم کے ساتھ موجود تھے۔ یہ تنظیم کراچی یونیورسٹی کے 5 فارغ التحصیل طلبا نے 2008 میں قائم کی تھی اور تب سے یہ فلاحی کاموں میں مصروف ہے۔
ہر سال 14 اگست کے دن کمک کی ٹیم جناح ہسپتال کراچی کے قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال میں جا کر بچوں میں یومِ آزادی کے حوالے سے تحائف تقسیم کرتی ہے اور ان کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم مختلف ہسپتالوں کے تعاون سے خون کے عطیات بھی اکٹھے کرتی ہے۔
ٹیم نے رضاکاروں کی دو روزہ سرگرمی کے بارے میں بریف کیا: کراچی کے 80 ایسے بچوں کو تنظیم کے تحت شاپنگ کروائی جانی تھی، جن کے والدین انہیں عید کے لیے نئے کپڑے خرید کر نہیں دے سکتے۔
زیادہ تر رضاکار پہلے بھی یہ کام کر چکے تھے لہٰذا پورے مرحلے سے واقف تھے۔ پہلے ہمیں بچوں کے تحفظ کے لیے اقدامات سمجھائے گئے اور اس کے بعد ہر رضاکار کو بچوں کا ایک گروپ دیا گیا۔
میرے ساتھ 3 مسکراتی ہوئی چھوٹی بچیاں بختاور، سیما اور فاریہ تھیں۔ اپنی نئی 'ٹیچر' سے مل کر ان کے چہرے کھل اٹھے تھے۔
دوسرے کمرے میں بچے خوشی سے اچھل کود میں مصروف تھے اور آنے والے لمحات کے بارے میں سوچ کر پرجوش تھے۔
میں نے بختاور سے پوچھا کہ اسے کس رنگ کا جوڑا چاہیے، تو ذہین بچی نے مسکراتے ہوئے کہا، "میں نے ابھی تو نہیں سوچا، پہلے ورائٹی دیکھوں گی پھر بتاؤں گی۔"
شاپنگ کے لیے کریم آباد جانے کے لیے کمک ٹیم نے کئی طرح کی ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا تھا۔ کچھ بچے رکشہ میں جانا چاہتے تھے تو کچھ گاڑی میں۔ راستے بھر میں بچے ایک گاڑی سے دوسری گاڑی تک باتیں کرتے رہے اور ہنستے رہے۔ شدید گرمی کے باوجود رضاکار اور بچے سب ہی پرجوش تھے اور عید کے منصوبوں کے بارے میں سوچ کر اور بھی زیادہ خوش۔
ہم پارکنگ لاٹ میں جمع ہوئے اور بچوں کو محفوظ رہنے کے بارے میں نکات بتائے۔ سیما نے مارکیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، "کیا ہم اس مارکیٹ میں جائیں گے؟" میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔
ہم نے جیسے ہی بچوں کو چلنے کا اشارہ کیا تو پھر ہم پیچھے پیچھے تھے اور بچے آگے آگے۔
میں اور بچیاں ایک دکان میں داخل ہوئیں اور جائزہ لینا شروع کیا۔ مگر یہاں کچھ ایسا نہیں تھا جو ہمیں پسند آتا، سو ہم ایک دوسری دکان میں چلے گئے۔
میں بچوں میں موجود خریداری کی سمجھ بوجھ کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ سیما نے سب سے پہلے جوڑا پسند کیا، کڑھائی والی ایک لمبی قمیض۔
اس کے بعد فاریہ، اس نے کڑھائی والی سیاہ و سفید قمیض پسند کی۔ جب میں نے اس کا سائز چیک کیا اور وہ فٹ آئی، تو اس کی خوشی دیکھنے لائق تھی۔
لیکن بختاور اب بھی ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ تھوڑی پریشان تھی، مگر پھر اسے ایک خوبصورت جوڑا پسند آ ہی گیا۔ بل ادا کرنے کے بعد میں نے بچوں کو بیٹھ کر انتظار کرنے کے لیے کہا اور دوسرے گروپ کے ساتھ سرخ جوڑے کی تلاش میں شامل ہوگئی۔
میں یہاں پر یہ بتاتے ہوئے بھی خوشی محسوس کر رہی ہوں کہ جب دکانداروں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک فلاحی سرگرمی ہے تو انہوں نے نہ صرف برائے نام قیمت وصول کی، بلکہ دوسری دکانوں کے بارے میں بھی بتایا۔ اگر ہمیں کوئی چیز یا سائز نہ ملتا تو انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کہاں سے ملے گا۔
مثال کے طور پر ایک گروپ کو ایک جوڑے کا چھوٹا سائز ڈھونڈنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ چنانچہ 2 ٹیم ممبران نے مجھے 8 بچوں کے ساتھ رکنے کے لیے کہا اور خود تلاش میں نکل گئے۔ جب ہم ایک تنگ گلی میں پہنچے تو ایک اور ٹیم ممبر قریب سے گزری۔ میرے بتانے پر اس نے مشورہ دیا کہ میں آگے بڑھوں اور بچوں کو جوتے دلواؤں۔
ہمیں قریب ہی ایک دکان ملی۔ جب میں دکان میں داخل ہوئی تو سیلز مین نے حیران ہو کر کہا: "اتنے سارے بچے!"
میں نے انہیں ہمارا مقصد بتایا تو وہ ہمیں جوتے رعایتی دام پر فروخت کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اب تک میری ابتدائی ہچکچاہٹ ختم ہوچکی تھی۔ یہ بچے اب میرے اپنے بچے تھے۔
بچوں کو ڈسپلے پر موجود جوتے بہت پسند آئے اور کافی وقت تک مختلف جوتے پسند کرنے کے بعد آخر سب بچوں نے جوتے خرید لیے۔
ایک ٹیم ممبر نے مجھے فون کیا اور کہا کہ واپس پارکنگ ایریا میں جمع ہونا ہے۔ وہاں ہم سب نے آپس میں اپنے تجربوں کا تبادلہ کیا۔ تمام رضاکار روزے سے تھے اس لیے واضح طور پر تھک چکے تھے، لیکن بچوں کی آںکھوں میں خوشی کی چمک نے ہماری ساری تکان دور کر دی۔
ہم واپس توصیف میموریل اسکول پہنچے، جہاں بچوں نے شاپنگ بیگز کھولے اور اپنی خریدی ہوئی چیزیں دکھائیں۔ تمام بچے ایک دوسرے کو اپنی چیزیں دکھانے کے لیے بیتاب تھے۔
کمک کی ٹیم نے اپنا مقصد پورا کر لیا تھا اور اس کا ثبوت یہ تصویر ہے.
تبصرے (7) بند ہیں