ڈھاکاحملہ: ایک'دہشت گرد'عوامی لیگ کے رہنما کا بیٹا
ڈھاکا: بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا کے ایک ریسٹورنٹ میں حملہ کرنے والے 6 دہشت گروں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام پڑھے لکھے اور اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان حملہ آوروں میں حکمراں جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان کا بیٹا بھی شامل تھا۔
امتیاز خان بابل حکمراں جماعت عوامی لیگ سے وابستگی رکھتے ہیں، جنھوں نے حملے میں اپنے بیٹے کے ملوث ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پڑھے لکھے اور دولتمند گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان غائب ہوئے اور بنگلہ دیشی نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے شدت پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈھاکا حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام مسترد
بابل نے بتایا کہ ہم نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا، گھر پر شدت پسندی سے متعلق کوئی کتاب یا ایسی کوئی شے موجود نہیں جس سے ہمیں اندازہ ہوتا کہ ہمارا بیٹا شدت پسندی کی راہ پر چل رہا ہے۔
سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں بابل کا بیٹا بھی ہلاک ہوگیا تھا، بابل کا کہنا ہے کہ جب ان کا بیٹا لاپتہ ہوا تو انہوں نے اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا تھا اور انہیں معلوم ہوا تھا کہ اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے اور بھی کئی نوجوان لاپتہ ہیں۔
واضح رہے کہ ڈھاکا کے ریسٹورنٹ پر حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
سیکیورٹی فورسز نے 6 حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک حملہ آور کو زندہ گرفتار کیا گیا تھا جس سے تفتیش جاری ہے۔
رپورٹس کے مطابق ہوسکتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک بے گناہ ہو جو فائرنگ کی زد میں آگیا، تاہم بقیہ 5 نوجوان اچھے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے، جن میں بابل کا بیٹا روہن بھی شامل تھا۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش ریسٹورنٹ حملہ: ’نشانہ غیر ملکی تھے‘
ایک حملہ آور بنگلہ دیش کی نامور نجی یونیورسٹی سے گریجویٹ تھا جبکہ ایک شمالی ضلع بوگرہ کے ایک مدرسے کا طالب علم تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ تمام حملہ آور کالعدم جمیعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) کے رکن تھے۔
روہن مبینہ طور پر ملائیشیا کی موناش یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہ چکا ہے، بابل کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ بنگلہ دیشی نوجوان کس طرح شدت پسندی کی جانب مائل ہورہے ہیں لیکن ان کے خیال میں اس کا اہم ذریعہ انٹرنیٹ ہے۔
دوسری جانب پولیس نے پانچویں حملہ آور کی شناخت 26 سالہ شفیق الاسلام کے نام سے کی ہے جس کے تعلق بوگرہ سے تھا اور وہ ڈھاکا میں مونٹیسوری ٹیچر تھا۔
بوگرہ پولیس کے ترجمان غازی الرحمٰن نے بتایا کہ گھر والوں نے تصویریں دیکھ کر شفیق الاسلام کو پہچانا اور انہیں نہیں معلوم کہ وہ کس طرح جے ایم بی میں شامل ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈھاکا حملہ: امریکا کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش
انہوں نے بتایا کہ شفیق 2 جنوری کو یہ کہہ کر گیا تھا کہ وہ زیارت پر جارہا ہے جس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں آیا۔
واقعے کے حوالے سے عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ حملہ آوروں نے مسلمانوں کو جانے دیا اور صرف غیر ملکیوں کو قتل کیا جبکہ زیادہ تر افراد کو چھریوں کے وار سے قتل کیا گیا۔
ہلاک ہونے والوں میں 9 اطالوی، 7 جاپانی ایک امریکی اور ایک بھارتی شامل تھے۔
دوسری جانب ڈھاکا پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا ہے کہ انہوں نے 5 حملہ آوروں اور دیگر متعدد نا معلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔
بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی لہر کے حوالے سے غیر ملکی سفارتکاروں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، اس سلسلے میں غیر ملکی سفارتکاروں کے وفد نے بنگلہ دیشی وزیر خارجہ سے ملاقات کرکے خدشات سے آگاہ کیا۔
کیفے حملے میں ہلاک ہونے والے سات جاپانی شہریوں کی میتیں ہوائی جہاز کے ذریعے ٹوکیو پہنچادی گئی ہیں جبکہ اٹلی کے 9 شہریوں کی لاشیں لے کر طیارہ ڈھاکا سے روانہ ہوگیا ہے، بھارتی شہری کی لاش پہلے ہی بھیج دی گئی تھی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔